ھفتہ, 04 مئی 2024

ایمز ٹی وی (کراچی) کراچی میں پانی کے لالے پڑ گئے ، شہر قائد کی فیشن ایبل بستیوں اور مختلف علاقوں میں پانی کی قلت نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ، کراچی واٹر بورڈ نے متاثرہ علاقوں میں مفت واٹر ٹینکر سروس شروع کر دی ہے۔

 

ایک طرف بڑھتی ہوئی گرمی ، دوسری جانب پانی کا بحران ، شہر قائد میں ہر گزرتا دن پانی کے بحران میں اضافہ کر رہا ہے ۔ مختلف علاقوں سمیت شہر کی فیشن ایبل بستیوں میں بھی پانی کی دہائی مچی ہوئی ہے تاہم پانی کی فراہمی کا مسئلہ تاحال حل نہیں ہو سکا ۔ شاہ فیصل کالونی، ملیر، لانڈھی، کورنگی، اورنگی ٹاؤن، قصبہ کالونی، سائٹ ،نیو کراچی ڈیفنس اور شیریں جناح کالونی میں بحران سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے ۔ لوگ پانی کے لئے ترس رہے ہیں ، واٹر ٹینکر والوں کے نخرے اور من مانیوں کے باوجود صارفین مہنگے داموں پر پانی خریدنے پر مجبور ہیں ۔ 

 

ایمز ٹی وی (کراچی) سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912ء کو بھارت کے شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ نقل مکانی کرکے لاہور شفٹ ہو گئے۔ ان کا شمار اردو کے ان نامور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جن کی تحریریں آج بھی بڑے ذوق اور شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ ان کے افسانے محض واقعاتی نہیں تھے بلکہ ان میں موضوعاتی جدت پائی جاتی تھی اور دنیا بھر میں جہاں جہاں پر اردو بولی، سمجھی اور لکھی جاتی ہے وہاں وہاں پر ان افسانوں کی شکل میں سعادت حسن منٹو کے خیالات اور مشاہدات موجود ہیں۔ 

 

سعادت حسن منٹو نے اپنے کیریئر کا آغاز لدھیانہ کے ایک اخبار سے کیا اور مرتے دم تک قلم سے ہی رشتہ استوار رکھا۔ ان کی اہم ترین تصانیف میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، آتش پارے، کھول دو، دھواں اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ سعادت حسن منٹو نے اپنی زندگی کا آخری حصہ لاہور میں ہی گزارا اور 18 جنوری 1955ء کو بیالیس برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔

ایمز ٹی وی (سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) شاید کمپیوٹر خریدنا کبھی کسی کا خواب رہا ہو لیکن اب اس خواب تو حقیقت میں بدلنا انتہائی آسان ہوگیا ہے۔

 

جی ہاں امریکی کمپنی نیکسٹ کو نے نے C.H.I.P نامی مختصر ترین کمپیوٹر تیار کر لیا ہے جس کی قیمت محض 9 ڈالر (لگ بھگ نو سو روپے )ہے۔ اس کمپیوٹر کو بالکل عام سے کمپیوٹر کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے، بس ضروری چیزیں مثلا ، کی بورڈ ، ماؤس ، کسی بھی اسکرین جوڑیں اور آپ کا پرسنل کمپیوٹر تیار ہوگیا۔اس کمپیوٹر کے ہارڈ وئیر بورڈ میں ،ایک GHz پروسیسر ، 512 ایم بی ریم ، اور 4 جی بی کی اسٹوریج ہارڈ ڈسک ہے، اس کے علاوہ اس میں وائی فائی اور بلو ٹوتھ کی سہولت بھی موجود ہے۔

ایمز ٹی وی (کراچی) اردو کے مشہور شاعر کیفی اعظمی کو ہم سے بچھڑے 13 سال گزر گئے لیکن ان کے لکھے گئے سریلے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

 

فلمی دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار اختر حسین رضوی عرف کیفی اعظمی اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور پہلی نظم 11 سال کی عمر میں تحریر کی۔1940 کے اوائل میں کیفی اعظمی بمبئی آ گئے اور صحافت کے شعبے سے منسلک ہوگئے اور یہیں ان کی شعری کا پہلا مجموعہ ’جھنکار‘ شائع ہوا۔مختلف صلاحیتوں کے مالک کیفی اعظمی نے لاتعداد فلموں کے لئے نغمے لکھے، فلم کاغذ کے پھول میں ان کے گانے ’وقت نے کیا ،کیا حسیں ستم‘ کو بہت سراہا گیا۔ اس کے بعد پاکیزہ فلم کا گانا’چلتے چلتے کہیں کوئی مل گیا تھا‘، ہیر رانجھا کا’یہ دنیا یہ محفل‘ اور ارتھ کے گیت’تم اتنا جو مسکرا رہے ہو‘ بے حد مقبول ہوئے۔ 

 

ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ ان میں جذبات کا بے پناہ اظہار، الفاظ کی خوبصورتی اور غیر منصفانہ معاشرے کے خلاف بغاوت کا عنصر تھا۔اردو شاعری کے فروغ کے لئے انتھک کام کرنے پر انہیں ساہتیا اکیڈمی فیلوشپ انعام سے نوازا گیا۔واضح رہے کہ کیفی اعظمی معروف بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی کے والد اور شاعر جاوید اختر کے سسر تھے۔ اپنے نغموں سے ناظرین کا دل جیتنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہو ئے۔

ایمز ٹی وی (ایجوکیشن) کولمبیا کی پولیس کا کہنا ہے کہ نوبیل انعام یافتہ ناول نگار گیبریل گارشیا مارکیز کے ناول ’تنہائی کے سو سال‘ کا چوری ہونے والا پہلا ایڈیشن برآمد کر لیا گیا ہے۔ یہ نایاب نسخہ دو مئی کو کولمبیا کے دارالحکومت بوگوٹا میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کتاب میلے میں ایک مقفل الماری سے چرا لیا گیا تھا۔

 

اس کتاب کے مالک اہم اور نایاب کتب جمع کرنے کے شوقین ہیں اور انھوں نے 1967 میں اسے خریدا تھا اور بعدازاں مارکیز نے اس پر اپنے دستخط بھی کیے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کتاب کی قیمت 60 ہزار امریکی ڈالر ہے، تاہم اس کے مالک کا کہنا ہے کہ یہ ان کے نزدیک انمول ہے۔

 

پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں یہ کتاب بوگوٹا میں پرانی کتابوں کے ایک سٹال سے ملی۔ پولیس کو شبہ ہے کہ اس چوری کے پیچھے آثارِ قدیمہ اور نایاب اشیا کا کام کرنے والے تاجر ہیں۔ جس کتاب میلے کے دوران یہ نسخہ غائب ہوا تھا وہ جنوبی امریکہ میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ اس کتاب میلے کا مرکزی خیال ایک تصوراتی شہر ماکوندو سے ماخوذ تھا جس کا ذکر گارشیا مارکیز نے اپنے ناول ’تنہائی کے سو سال‘ میں کیا تھا۔

 

سنہ 1982 میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے ادیب گیبریل گارشیا کی گذشتہ برس موت کے بعد ان کے ناولوں کے پہلے ایڈیشنز کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سنہ 1967 میں شائع ہونے والے ناول ’تنہائی کے سو سال‘ کا پہلا نسخہ پرانی کتابوں کے ایک تاجر الوارو کاسٹیلو نے سنہ 2006 میں یوراگوئے کے دارالحکومت مونٹیوڈیو سے خریدا تھا۔ بعدازاں گیبریل گارشیا مارکیز نے اس کتاب پر اپنے دستخط کیے اور اسے الوارو کاسٹیلو کے نام یہ الفاظ لکھے تھے: ’الوارو کاسٹیلو کے لیے، پرانی کتابیں فروخت کرنے والا، آج اور ہمیشہ کے لیے، تمہارا دوست، گابو۔‘

ایمز ٹی وی (ایجوکیشن) ماہرین نے امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے ایک کام کی بات بتائی ہےجن کا کہنا ہے کہ امتحان کی تیاری کے لیے رات رات بھر جاگ کر مطالعہ کرنے کا طریقہ آپ کو کامیاب بنانے کا فارمولا نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ نئی تحقیق کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری قلیل مدت کی یادوں کو طویل مدتی یاداشت میں تبدیل کرنے کا نظام اس وقت زیادہ موثر طریقے سے کام کرتا ہے جب ایک شخص سو رہا ہوتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا یہ عمل دماغ میں کس طرح سے کام کرتا ہے یہ اب بھی ایک سر بستہ راز کی طرح ہے۔

 

علم حیاتیات سے وابستہ امریکی محققین نے اپنے مطالعے میں لکھا کہ زیادہ تر جانور جن میں مکھی سے انسان تک نیند سے محروم ہونے پر بھلکڑ ہو جاتے ہیں یعنی ان کی یاداشت نیند کی کمی سے متاثر ہوتی ہے۔ہمارا مطالعہ اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ نیند، یاداشت اور سیکھنے کی صلاحیت کو بڑھانےمیں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نتیجہ اس نظام کی وضاحت کرتا ہے جس کے ذریعے نیند اور حافظے کے نظام کا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔

 

ماہرین نے لکھا کہ سائنس دانوں سے حاصل شدہ عام معلومات کے مطابق نیند ،یاداشت اور سیکھنے کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ لیکن اس نتیجے سے لوگوں میں دو قسم کی رائے پیدا ہوئی ہے ایک وہ جو سمجھتے ہیں کہ جو نظام نیند کو فروغ دیتا ہے وہی یاداشت کو بھی محفوظ رکھنے کا ذمہ دار ہے۔

 

اس حوالے سے ایک دوسری سوچ کہتی ہے کہ کیا یہ دو مختلف نظام ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حافظے کا نظام رات میں اس لیے زیادہ موثر طریقے سے کام کرتا ہے کیونکہ اس وقت دماغ پر سکون ہوتا ہے جس کی وجہ سے نیورانز (عصبی خلیات) کے درمیان تعلقات قائم ہوتے ہیں اور دماغ نیند میں اسے دہراتا ہے جو وہ دن بھر سیکھتا ہے۔

 

یا یہ کہ پھر اصل میں یاداشت کے نیورانز ہمیں نیند کی طرف راغب کرتے ہیں۔