ھفتہ, 18 مئی 2024

کراچی: پاکستان کے معروف شاعر اور ادیب  امجد اسلام امجد کو ترکی کے اعلیٰ ثقافتی اعزاز سے نواز دیا گیا۔

 اپنی شاعری سے لوگوں کادل  جیت لینے والے  شاعر  امجد اسلام امجدکوترکی میں منعقدہ ایک تقریب میں  نصیب فضیل انٹرنیشنل کلچرل  اور آرٹ ایوارڈ سے نوازا گیاجو کہ ترکی کا اعلیٰ ثقافتی ایوارڈہے-جس میں ان کی شاعری بھی سنی گئی۔

تقریب کے مہمان خصوصی ترک صدر طیب اردگان تھے  انہوں  نے تقریب میں خطاب کرتے ہوئے امجد اسلام امجد کی شاعری کو بہت سراہا اور کہا کہ امجد اسلام امجد جدید دور میں اردو ادب کے سب سے اہم  شاعر اور پاکستان کی نامور شخصیت ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ترکی کا انتہائی عزیز اور قریبی دوست ملک ہے، دونوں ممالک کا مفاد یکساں ہے، یہ تعلقات باہمی اعتماد، یکجہتی اور خلوص پر مبنی ہیں۔

ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد امجد اسلام امجد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترکی ہر پاکستانی کے دل کے قریب ترہے اور اس ایوارڈ پر ترک بھائیوں کے شکر گزار ہیں کے انہوں نےان کے کام کو اس قدو عزت  و محبت سے نوازا۔

 

کینیڈا: معروف شاعر حمایت علی شاعر آج صبح کینیڈا میں وفات پاگئے۔
 
حمایت علی شاعر 14 جولائی 1926 کو اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے، ان کی شاعری اور فلمی گیت بے انتہا مقبول ہوئے۔
 
حمایت علی شاعر کی پہلا شعری مجموعہ ’آگ میں پھول‘ 1956 میں شائع ہوا جس پر انہیں 1958 میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
 
حمایت علی شاعر نے مختلف فلموں میں بھی کام کیا جن میں جب سے دیکھا تمہیں، دل نے تجھے مان لیا، دامن، ایک تیرا سہارا، کنیز، میرے محبوب، تصویر اور کھلونا شامل ہیں۔
 
حمایت علی شاعر کو ادبی خدمات اور اردو ادب پر 2002 میں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔
 
اس کے علاوہ بہترین فلمی گیت لکھنے پر حمایت علی شاعر کو نگار ایوارڈ اور رائٹرز گلڈ آدم جی ایوارڈ سمیت متعدد ایوارڈ سے نوازا گیا۔
 
حمایت علی شاعر علیل تھے اور کینیڈا میں زیر علاج تھے، انہیں منگل کی صبح دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا، حمایت علی شاعر کی تدفین کینیڈا میں ہی ہو گی۔
ایمزٹی وی (انٹرٹینمنٹ) اردو کے معروف شاعر ادیب، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار احمد ندیم قاسمی کو مداحوں سے بچھڑے 11برس بیت گئے۔
احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916 کو پنجاب کے ضلع خوشاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ میں پیدا ہوئے۔ ان کااصل نام احمد شاہ جب کہ ندیم ان کا تخلص تھا۔ انہوں نے ادب کی تمام اصناف پر طبع آزمائی کی۔ جن میں شاعری ،تنقید، افسانہ نگاری، بچوں کے ادب کے علاوہ انشائیے اور ڈرامے بھی شامل ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے شاعری کی ابتدا1931 میں کی ،مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم اس وقت کے کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ ’ؔ’سیاست‘‘ کے سرورق پر شائع ہوئی، انہوں نے نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل کرلی تھی۔
 
انہوں نے افسانہ نگار اور شاعر کی حیثیت سے اس وقت خود کو نمایاں کیا جب بر اعظم پاک وہند میں ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔ وہ بنیادی طور پر ایک شاعر تھے مگر افسانہ نگاری میں بھی انھوں نے پہاڑوں کی برف، نصیب، لارنس آف تھیلیسیا، بھاڑا، بدنام جیسے ان کے افسانے تحریر کیے۔
انہوں نے 50 سے زائد یادگار کتابیں لکھیں جن میں کفن دفن، رئیس خانہ، موچی، خربوزے، ماسی گل بانو، ماں، آتش گل، نیلا پتھر، عاجز بندہ، بے گناہ، سلطان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ادب کی دنیا کا یہ درخشندہ ستارہ 10 جولائی 2006 کو لاہور میں اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔

 

ایمزٹی وی(انٹرٹینمنٹ)اردو کے عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس ہوگئے۔ 28 فروری 1928 کو بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے حبیب جالب نے دہلی کے اینگلو عریبک ہائی اسکول میٹرک کیا۔ جالب نے لڑکپن سے ہی مشقِ سخن شروع کردی تھی۔
جالب ابتدا میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہا کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ کراچی آگئے اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہی وہ دور تھا جب انہوں نے معاشرتی نا انصافیوں کو انتہائی قریب سے دیکھا اور پھر یہی محسوسات ان کی نظموں کا موضوع بن گئے۔
حبیب جالب ایک عام آدمی کے انداز میں سوچتے تھے اسی لئے وہ آخر دم تک پاکستان کے محنت کش طبقے کی زندگی میں تبدیلی کے آرزو مند رہے، وہ معاشرے کے ہر اُس پہلو کے خلاف کمر بستہ ہوئے جس میں آمریت کا رنگ جھلکتا تھا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاالحق کے دور آمریت میں قید وبند کی صعوبتیں کاٹیں۔ حبیب جالب نے معاشرے میں ہونے والے ظلم، زیادتی، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو بھی لکھا وہ زبان زدِ عام ہوا۔
حبيب جالب اپنے وقت کے حکمرانوں کی صعوبتيں اور عام آدمی سے ملنے والی محبتوں کے ساتھ 1993 کو آج ہی کے روز جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ انہیں دنیا سے منہ موڑے 24 برس بیت گئے لیکن ان کی انقلابی شاعری آج بھی اسی طرح تازہ ہے کہ پڑھنے اور سننے والے میں جدو جہد کی نئی روح پھونک دیتی ہے۔

 

 

ایمزٹی وی(انٹرٹینمنٹ) اردوزبان کے سب سے بڑے شاعر اورمحسن مرزا غالب ہیں،انہوں نے اردو کو وہ عروج اور دوام بخشا جو آج بھی ضرب المثل ہے۔ اردو اور فارسی کے عظیم شاعر اسداللہ غالب 27 دسمبر1799ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے، لڑکپن سے ہی شعر کہنے لگے، ان کی شخصیت اپنی مثال آپ تھی، بادشاہ وقت سے نجم الدولہ دبیرالملک نظام جنگ کا خطاب ملا، تخلص غالب رکھا۔ غالب کی شاعری نا صرف ان کی ذاتی زندگی کا عکس ہے بلکہ ان کے عہد، سماج اور اردگرد کے ماحول کی بھی آئینہ دار ہے،شاعری ہو یا نثر، انشاپردازی یا خطوط نویسی، غالب نے ہر شے میں منفرد اور رنگین جدتیں پیدا کیں۔ غالب کو مشکل سے مشکل موضوعات کو نہایت سادگی سے بیان کرنے کا ملکہ حاصل تھا، فارسی اور اردو شاعری کے نوشہ میاں کے قلم کا اعجاز ہے کہ آج اردو دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔

 

ایمز ٹی وی (کراچی) اردو کے مشہور شاعر کیفی اعظمی کو ہم سے بچھڑے 13 سال گزر گئے لیکن ان کے لکھے گئے سریلے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

 

فلمی دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار اختر حسین رضوی عرف کیفی اعظمی اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور پہلی نظم 11 سال کی عمر میں تحریر کی۔1940 کے اوائل میں کیفی اعظمی بمبئی آ گئے اور صحافت کے شعبے سے منسلک ہوگئے اور یہیں ان کی شعری کا پہلا مجموعہ ’جھنکار‘ شائع ہوا۔مختلف صلاحیتوں کے مالک کیفی اعظمی نے لاتعداد فلموں کے لئے نغمے لکھے، فلم کاغذ کے پھول میں ان کے گانے ’وقت نے کیا ،کیا حسیں ستم‘ کو بہت سراہا گیا۔ اس کے بعد پاکیزہ فلم کا گانا’چلتے چلتے کہیں کوئی مل گیا تھا‘، ہیر رانجھا کا’یہ دنیا یہ محفل‘ اور ارتھ کے گیت’تم اتنا جو مسکرا رہے ہو‘ بے حد مقبول ہوئے۔ 

 

ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ ان میں جذبات کا بے پناہ اظہار، الفاظ کی خوبصورتی اور غیر منصفانہ معاشرے کے خلاف بغاوت کا عنصر تھا۔اردو شاعری کے فروغ کے لئے انتھک کام کرنے پر انہیں ساہتیا اکیڈمی فیلوشپ انعام سے نوازا گیا۔واضح رہے کہ کیفی اعظمی معروف بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی کے والد اور شاعر جاوید اختر کے سسر تھے۔ اپنے نغموں سے ناظرین کا دل جیتنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہو ئے۔