ھفتہ, 04 مئی 2024

ایمز ٹی وی (ہیلتھ ڈیسک) ہم دن بھر جو کچھ کھاتے اور پیتے ہیں وہ خون میں شامل ہو کر ناصرف ہمیں توانائی فراہم کرتا ہے بلکہ ہماری غذا بلاواسطہ یا بالواسطہ دماغی کارکردگی اور صلاحیت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق چند غذاؤں کے باقاعدہ استعمال سے انسانی ذہنی کارکردگی میں 20 فیصد اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ آئیے جانتے ہیں 10 ایسی غذاوں کے بارے میں جن کے استعمال سے یاداشت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

بیری: ذہنی دباؤ اورغصے کے باعث انسان کا دماغ اپنی عمر سے پہلے ہی سٹھیانا شروع ہوجاتا ہے، بیریوں میں موجود قدرتی اجزا تکسیدی دباؤ کے خلاف کارگر ثابت ہوتے ہیں اوراشتعالی کیفیت کے سدباب کے طورپرکام کرتے ہیں۔ بیریوں کا اخروٹ اور ناشپاتیوں کے ساتھ استعمال، انسانی دماغ کے خلیوں کو جوان رکھتا ہے، جس سے دماغی کارکردگی اور سوچنے کی صلاحیت میں بہتری آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

کیلا: دماغ کی بہترین کارکردگی کے لیے خون میں گلوکوز کی مقدار کم از کم 25 گرام ہونا ضروری ہے اور کیلا ایسا پھل ہے جس میں گلوکوز کی مطلوبہ مقدار موجود ہوتی ہے جو دماغی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔

انڈے: وٹامن بی یادداشت کو بہتر بنانے اور دماغ کی جانب سے ردعمل کے وقت کو بہتر بناتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انڈے وٹامن بی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ دہی دہی انسانی جسم کے لئے کیلشیم، حمیات اور وٹامنز فراہم کرنے کا ایک آسان اور بہترین طریقہ ہے- ان اجزا کی بدولت دماغی صلاحیتوں کو فراغ ملتا ہے۔ مچھلی: مچھلی اومیگا تھری ، پروٹین ، فولاد اور وٹامن بی کا خزانہ ہوتی ہے جودماغ کے دہرانے کےعمل کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ استدلال کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔

بینگن: بینگن کا استعمال دماغ کے خلیوں اور پیغام رساں مالیکیولز کے درمیان رابطے کو بہتر بناتا ہے جس کےدماغ پر حیرت انگیز طور پرخوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔

سبز چائے: سبز چائے کا استعمال انسان کے اعصابی طنام کو بہتر بنانے کا سبب بنتا ہے۔

کچی گاجر کچی گاجروں کواپنی روز مرہ خوراک کا باقاعدہ حصہ بنانے سے خون میں شکر کی مقدار متوازن رہتی ہے جو آپ کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتا ہے۔

کافی: کافی میں موجو د کیفین کا استعمال یادداشت اور آنکھوں پر اچھا اثرڈالتا ہے خصوصا ان لوگوں کے لیے جو گھنٹوں کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔

چاکلیٹ: ڈارک چاکلیٹ کا استعمال ذہنی ارتکاز کو بہتر بناتا ہے، جب کہ دودھیا چاکلیٹ تصویری یاداشت، بولنے کی صلاحیت ، اور ردعمل میں بہتری لاتی ہے ۔

 

ایمز ٹی وی (سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) پاکستان کے ہونہار نوجوان اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے دنیا کے کسی بھی ملک کے طلبہ سے کم نہیں جس کی تازہ ترین مثال پشاور کے طلبہ ہیں جنہوں نے نابینا افراد کے لئے چھڑی کی مدد کے بغیر چلنے والا خصوصی ٹوپی تیار کی ہے۔

 

پشاور یونیورسٹی کے 4 ہونہار طلبہ علموں نے نابینا افراد کے لیے الیکٹرانک کیپ فار بلائینڈز کے نام سے ایک ایسا ہیلمٹ تیار کیا ہے جس کی مدد سے بینائی سے محروم افراد آسانی کے ساتھ چل پھر سکتے ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ الیکٹرانکس کے طالب علموں نے اس الیکٹرانک کیپ کو صرف 2 ماہ کی قلیل مدت میں 7 ہزار روپے کی لاگت سے تیار کیا ہے۔

 

الیکٹرانک کیپ تیار کرنے والے طالب علموں کا کہنا ہے کہ اس ہیلمٹ نما ٹوپی کی مدد سے نابینا افراد بھی دوسرے لوگوں کی طرح روزمرہ کے کام کر سکتے ہیں۔ یہ الیکٹرانک کیپ ایک بیٹری کی مددسے چلتی ہے، کیپ کے چاروں اطراف سینسرز لگائے گئے ہیں جو کہ راستے میں آنے والی رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور رکاوٹ قریب آنے کی صورت میں آواز یا پھر وائبریشن کے ذریعے خبردار کرتی ہے، یہ آواز یا وائبریشن الیکٹرانک کیپ کے صرف اُس رُخ پر ہوتی ہے جس سے رکاوٹ کی نشاندہی ہوتی ہے۔

 

پراجیکٹ سپروائزر ڈاکٹر محمد آصف کا کہنا ہے کہ یہ طالب علموں کی ایک بہت ہی اچھی کاوش ہے جس سے مستقبل میں فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پراجیکٹ کو دوسرے مرحلے میں گوگل میپ کے ساتھ منسلک کیا جائے گا تاکہ یہ کیپ اور زیادہ بہتر طریقے سے کام کرسکے۔

 

پروفیسر آصف کہتے ہیں کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں اور انڈسٹری کے درمیان رابطوں کا بہت زیادہ فقدان ہے، بدقسمتی سے نئی ایجادات کو مارکیٹ میں متعارف نہیں کرایا جاتا جس کی وجہ سے اچھی ایجادات محض کتابوں تک محدود رہ جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے کچھ اساتذہ اور طالب علموں نے بھی اس الیکٹرانک ٹوپی میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور وہ اس میں جدید سافٹ ویئر ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے لیے کوشاں ہیں جو بہت خوش آئند بات ہے، طالب علموں کی اس ایجاد کو نابینا افراد کی بینائی کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔

ایمز ٹی وی (پاکستان) ماں ایک ایسا رشتہ ایک ایسا تعلق جس سے محبت کسی دن کی محتاج نہیں دنیا کے ہر معاشرے میں اس عظیم ہستی کا احترام کیا جاتا ہے اسی محبت اور عقیدت کے اظہار اور ماں کی عظمت کو یاد گار بنانے کے لیے  دنیا بھر میں عام طور 10  مئی کو ماؤں کا عالمی دن یعنی مدرزڈے کے طور پرمنایا جاتا ہے لیکن کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ مدرزڈے کا آغٓاز کب ہوا اور کس طرح یہ پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

 

مدرز ڈے کی ابتدا:

زمانہ قدیم میں یونانی اور رومن اپنے دیوتاؤں ’’ریا‘‘ اور ’’سائبیل‘‘ کو ماں کا درجہ دے کر ان کا دن مناتے تھے لیکن اس دن کا باقاعدہ آغاز امریکا سے ہوا جہاں 1908 میں مشہور سماجی شخصیت این ریوس جاروس  کے انتقال کے بعد اس کی بیٹی اینا جاروس نے اپنی ماں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے گرافٹن کے میتھو ڈیس چرچ میں دنیا کا پہلا باقاعدہ مدر ڈے منایا جس کے بعد میں پوری دنیا میں ایک نئی روایت کا جنم ہوا۔ میتھو ڈس چرچ میں مدرڈے منانے کے بعد اینا نے کوشش کی کہ اس دن کو قومی سطح پر منایا جائے اور بالآخر وہ 1914 میں اپنے مقصد میں کامیابی ہو گئی اور اس وقت کے امریکی صدر ووڈ را ولسن نے ہرسال مئی کے دوسرے اتوار کو ماؤں کے نام کرنے کا اعلان کردیا۔

 

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دن کو امریکا میں قومی دن بنانے کے لیے انتھک کوشش کرنے والی خاتون اینا جاروس نے پوری زندگی شادی ہی نہیں کی تھی اس لیے وہ ماں ہی نہیں بن سکی جب کہ انہوں اپنی پوری زندگی دنیا میں امن کے قیام کی کوششوں میں لگادی۔

 

برطانیہ اور یونان  میں ماؤں کی عظمت کی یاددہانی کے لیے ابتدا میں مدرنگ سنڈے منایا جاتا تھا جس روز لوگ اپنے علاقے کے سب سے بڑے چرچ جسے مدر چرچ کہا جاتا تھا وہاں جمع ہوجاتے اور خصوصی سروسز کا اہتمام کرتے تاہم برطانیہ میں اب بھی یہ دن کچھ اسی انداز میں منایا جا تا ہے لیکن اب جدید دور میں بچوں نے اپنی ماؤں سے محبت کے اظہار کے لیے دلکش اور خوبصورت کارڈز بنا کر اس دن کو اور بھی یادگار بنادیا ہے۔

 

کچھ معاشروں میں اس دن کو مختلف ناموں سے منایا جاتا ہے جیسے کیھولک ممالک میں اسے ورجین میری ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بولیویا میں جس جنگ میں خواتین نے اہم کردار ادا کیاتھا اسی دن کو مدر ڈے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سابق کیمونسٹ ممالک میں مدر ڈے کی بجائے انٹرنیشنل وومن ڈے منایا جاتا ہے اور اب بھی روس میں اسی دن کو مدر ڈے کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے تاہم یوکرائن اور کرغزستان میں وومن ڈے کے ساتھ ساتھ اب مدر ڈے بھی منایا جانے لگا ہے۔

 

دنیا کے مختلف مذاہب میں اہمیت:

رومن کیتھولک چرچ میں مدر ڈے کو ورجن میری سے منسلک کیا جاتا ہے اور اس روز لوگ گھروں پر خصوصی سروسز کا اہتمام کرتےہیں ۔ بھارت اور نیپال میں اس دن کو ماتا ترتھا آونشی کے نام سے بیساکھی کے ماہ میں نئے چاند کے دن منایا جاتا ہے جو عام طور پر اپریل یا مئی میں آتا ہے۔

 

عرب ممالک میں مدرڈے عام طور پر 21 مارچ کو موسم بہار کے پہلے دن منایا جاتا ہے۔ مصر میں اس دن کی ابتدا تو 1943 میں ہوگئی تھی تاہم اسے باقاعدہ حکومتی سطح پر 21 مارچ 1956 کو منایا گیا اور اسی روایت کو پوری عرب دنیا میں اسی دن منایا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی مدر ڈے منایا جاتا ہے تاہم ہر ملک اپنی روایات اور ثقافت کے مطابق اسے مختلف تاریخوں پر مناتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ دن ہر معاشرے میں  اپنا وجود رکھتا ہے جو ماں سے محبت اور اس کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ایمز ٹی وی (کراچی) صوبہٴسندھ کے دارالحکومت کراچی میں سندھ کی ثقافت کو فروغ دینے کیلئے محکمہٴ ثقافت سندھ کی جانب سے تین روزہ ثقافتی و ادبی میلے کا انعقاد کیا گیا یے۔

 

اس میلے کا آغاز جمعے کے روز کراچی آرٹس کونسل میں ہوا۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر برائے ثقافت و سیاحت شرمیلا فاروقی نے کہا ہے کہ ’یہ ثقافتی فیسٹیول ہماری سندھ دھرتی سے لازوال محبت کی تجدید ہے، جس کے ذریعے سندھ کی عظیم تہذیب، تاریخی حیثیت، علمی و ادبی اہمیت اور لیجنڈ ہستیوں کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں روشناس کرانے اور   فروغ دینے کا موقع ملے گا۔‘ ان کامزید کہنا تھا کہ ’سندھ کے بڑے شہر کراچی میں صوبے کے سب سے بڑے فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس طرح کی سرگرمیاں کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں بھی منعقد کی جائیں گی۔ سندھ کے اس طرح کا ثقافتی فیسٹول سالانہ سطح پر منعقد کیا جائےگا۔‘

 

سندھ ثقافتی میلے میں خواتین کے ہاتھ کی کڑھائی کے ملبوسات، چوڑیوں، مختلف سائز کے ہینڈ بیگز، بیڈشیٹس کے اسٹال، جبکہ سندھی ثقافت میں نمایاں رہنے والی سندھی ٹوپی کا اسٹال، کڑھائی والے جوتے، مٹی کے برتن، ہاتھ سے کپڑے کی تیاری اور مختلف الانواع و اقسام کھانے پینے کے اسٹالز سمیت سندھی ادبی کتابوں کے اسٹال بھی میلے کا حصہ ہیں۔  محکمہ ثقافت سندھ کے زیر اہتمام منعقدہ یہ میلہ اتوار تک جاری رہے گا۔