ھفتہ, 18 مئی 2024
×

Warning

JUser: :_load: Unable to load user with ID: 46

ایمز ٹی وی ( اسلام آباد )  نواب اکبر خان بگٹی کے قتل میں سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ ) پرویز مشرف اور سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز سمیت چھ ملزمان پر فردِ جرم عائد کر دی گئی ہے۔یہ فردِ جرم بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران عائد کی گئی  پرویز مشرف آج بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کے وکیل ذیشان چیمہ کی جانب سے کہا گیا کہ وہ بیمار ہونے کی وجہ سے حاضری سے قاصر ہیں عدالت میں ان کا میڈیکل سرٹیفیکیٹ بھی پیش کیا گیا جس پر عدالت نے انھیں آج حاضری سے استثنیٰ دے دیا۔ ۔ ۔یہ مقدمہ پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے علاوہ سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد شیر پاؤ، سابق گورنر بلوچستان اویس احمد غنی، سابق صوبائی وزیر داخلہ شعیب احمد نوشیر وانی اور سابق ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی صمد لاسی کے خلاف دائر ہے۔نواب محمد اکبر خان بگٹی 26 اگست 2006 کو ترتانی میں ایک فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہوگئے تھا مقدمے کے مدعی اور نواب بگٹی کے صاحبزادے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی کے وکیل سہیل احمد راجپوت ایڈووکیٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرف بیمار نہیں اور عدالت سے جان بوجھ کر غیر حاضر ہیں ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف تو ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دے رہے ہیں اور کہیں سے بیمار دکھائی نہیں دیتے۔فردِ جرم عائد کیے جانے کے بعد جج آفتاب احمد لون نے مقدمے کی سماعت چار فروری تک ملتوی کر دی اور کہا کہ چار فروری سے اس مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔

ایمز ٹی وی (اسلام آباد) وفاقی حکومت نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی فوجی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان کیا ہے  تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو محفوظ بنایا جاسکے ۔اس بات کا فیصلہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سربراہی میں دہشت گردی سےنمٹنے کے لیے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد سے متعلق اجلاس میں کیا گیا۔اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیاگیا کہ ان علاقوں میں فوجی عدالتوں کے قیام کےلیے اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت آزاد کشمیر اورگلگت بلتستان کونسلر سے کروایا جائے گا۔وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں،اجلاس میں بتایاگیا کہ گذشتہ تین ہفتوں کے دوران پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں مذہبی منافرت پھیلانے پر ایک سو چونسٹھ مقدمات درج کیےگئے جبکہ اس ضمن میں 157 افراد کو حراست میں لیاگیا۔ اجلاس کو یہ بھی بتایا گیا کہ 40 پرنٹٹنگ پریس اور دوکانوں کو بھی سیل کیاگیا ہے جہاں پر مذہبی منافرت پھیلانے والا مواد شائع اور فروخت ہوتا تھا۔

ایمز ٹی وی (اسلام آباد) پولیو جیسے موذی مرض کے خاتمے کے لیے استعمال کی جانے والی ویکسین کو پاکستان میں حلال قرار دے دیا گیا ہے۔سرکاری ذرائع اور دستاویزات سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈی آراے پی) کے زیر انتظام ایک لیبارٹری نے پولیو ویکسین کے ٹیسٹ کے بعد اس کے حلال ہونے کی تصدیق کی ہے۔ تاہم کچھ والدین پولیو ویکسین کو حرام قرار دے کر اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے گریز کرتے ہیں۔انسدادِ پولیو مہم کی دستاویزات کے مطابق ہمارے معاشرے میں یہ تصور 2004 میں اس وقت پروان چڑھا جب چند دقیانوسی عناصر نے اس قسم کی باتیں عام کرنا شروع کردیں کہ پولیو ویکسین میں بچوں کو بانجھ بنانے کے لیے جان بوجھ کر چند انسانی ہارمون شامل کیے جاتے ہیں۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بہت سے پولیو رضاکار اس بیماری کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں یا اپنے ہاتھ پاؤں گنوا چکے ہیں۔مزید پڑھیں:پاکستان میں پولیو جہاد کے 'شہداء' کی داستان تاہم اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ بہت سے سادہ لوح پاکستانیوں نے پولیو ویکسین کے خلاف دقیانوسی عناصر کے من گھڑت دعووں کی بناء پر نہیں بلکہ تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسندوں کے خوف کی وجہ سے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کیا۔خصوصاً قبائلی علاقوں میں اس پریشان کن رجحان میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ ابیٹ آباد کے قرب و جوار میں ایک پاکستانی فزیشن شکیل آفریدی کی جانب سے چلائی جانے والی ایک جعلی ہیپٹائٹس ویکسین نے ہی امریکی سی آئی اے کو مئی 2011 میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرکے قتل کرنے میں مدد دی۔جون 2012 میں طالبان نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں پولیو ویکسینیشن پر پابندی لگا دی اور اس ویکسین کوحرام قرار دے دیا گیا، حتیٰ کہ وہ لوگ بھی اس بات کے حق میں تھے جن کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ نہیں تھیں۔اس وقت سے لے کر اب تک ملک میں نئے پولیو کیسز کی تعداد 300 کی ریکارڈ تعداد تک پہنچ گئی ہے اور پاکستان پر 'پولیو وائرس کا گڑھ' ہونے کا داغ لگ چکا ہے۔ حکام کے مطابق حرام ہونے کا لیبل ہٹانے کے لیے ویکسین کے تین مختلف کمپنیوں کے تیار کردہ نمونے اسلام آباد میں نیشنل کنٹرول لیبارٹری فار بائیولوجیکلز (این سی ایل بی) کو بھیجے گئے۔

این سی ایل بی کے ڈائریکٹر عبدالصمد خان نے تصدیق کی کہ ویکسین کے نمونوں کی کم سے کم مقدار میں بھی انسانی ہارمون کی موجودگی کو جانچا گیا اور یہ ثابت ہوا کہ پولیو کے دو قطروں میں چھ ممکنہ ہارمون کی معمولی سی مقدار بھی نہیں پائی گئی۔ معلقہ دستاویزات میں پولیو ویکسین کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات ملتے ہیں اور ان کے مطابق پولیو ویکسین میں ایسٹروجن اور پروجسٹیرون نامی ہارمون نہیں پائے جاتے جو بانجھ پن پیدا کرتے ہیں۔ کیا آپ بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے کے حق ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ پولیو ویکسین بندر کے گردے کے خلیوں میں پیدا ہوتی ہے اور مختلف بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پولیو ویکسین کی تیاری کے تمام مراحل کو مکمل طور پر جانچا ہے اور اس میں ایسا کوئی وائرس نہیں ملا جو بیماریاں پیدا کرے۔ ایک مزید سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ پولیو ویکسین کی تیاری پاکستان میں کیوں نہیں ہوتی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ویکسین ملک میں 1980 سے 2003 تک تیار ہوتی تھی، تاہم اس کا فارمولا پرانا تھا اور اس کے تحت ایک خوراک میں چھ قطرے دینے پڑتے تھے۔ مذکورہ ویکسین کو سنبھالنا مشکل تھا اور اکثر یہ بچوں کے منہ سے باہر گر جاتی تھی تاہم موجودہ ویکسین کے صرف دو قطرے کافی ہوتے ہیں، یہ نہ صرف زیادہ مستحکم ہے بلکہ اسے سنھالنا بھی آسان ہے۔دوسری بات یہ کہ مستقبل قریب میں پولیو ویکسین انجیکشن کی صورت میں دستاب ہوگی لہذا اسے باہر سے منگوانے کو ہی ترجیح دی جائے گی۔فی الوقت انڈونیشیا، بیلجیئم، انڈیا، اٹلی اور فرانس میں پولیو ویکسین تیار کی جارہی ہے اور پاکستان عالمی ادارہ صحت کی جانب سے مستند قرار دیئے گئے تیار کنندگان سے ہی پولیو ویکسین خریدتا ہے۔ دستاویزات کے مطابق اگرچہ ویکسین کے معیار کو جانچنے کی ضرورت نہیں تاہم اسے وقتاً فوقتاً مقامی طور پر بھی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز ) کے وائس چانسلر اور میڈیکل اسپیشلسٹ ڈاکٹر جاوید اکرم نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ ویکسین کے لیبارٹری ٹیسٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ جینیٹک انجینیئرنگ کے تحت بنائی جاتی ہے اور اس کا حرام اور حلال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ اس رپورٹ کے بات شاید ناقدین ویکسین پر اعتماد کا اظہار کریں اور اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانا شروع کریں۔حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کے نیشنل مینیجر رانا صفدر نے بھی اس امید کا اظہار کیا کہ یہ رپورٹ ان مذہبی عناصر کو مطمئن کرنے میں مدد دے گی جو پولیو ویکسینیشن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے انٹرنیشنل اسلام یونیورسٹی کے اشتراک سے پولیو ویکسین پر تنقید کرنے والے مذہبی عناصر کو اس بات پر راضی کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا کہ یہ ویکسین حلال ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں اس تنقید کا سامنا ہے کہ یہ ویکسین ملک سے باہر تیار ہوتی ہے اور یہ کہ ڈبلیو ایچ او ایک پاکستانی ادارہ نہیں ہے'۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ہمیشہ سے اس ویکسین کی کارگردگی اور محفوط ہونے کے حق میں رہے ہیں اور لیبارٹری ٹیسٹ سے یہ مزید واضح ہوگیا ہے اب مذہبی عناصر کو بھی اس بات پر متفق ہو جا نا چاہیے'۔

 ایمز ٹی وی (فارن ڈیسک) حال ہی میں اہم امریکی اہداف پر سائبر حملوں کے بعد صدر براک اوباما نے سائبر سکیورٹی قوانین کو مضبوط بنانے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں۔ امریکی صدر نے کہا کہ پینٹاگان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ اور سونی پکچرز پر سائبر حملے سے قوانین سخت کرنے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ یہ تجاویز فوری طور پر کانگریس کو بھیجی جائیں گی۔اس سے قبل سائبر سکیورٹی کے بارے میں قانون سازی کی کوششوں کو شہری حقوق کی تنظیمیں تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ اوباما انتظامیہ کو لوگوں کی خلوت میں مداخلت پر بدستور تشویش کا سامنا ہے، خاص طور پر ان خبروں کے بعد کہ حکومت آن لائن سرگرمیوں کی بڑے پیمانے پر نگرانی کرتی ہے۔ تاہم سائبر جرائم نے لاکھوں لوگوں کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔ کئی امریکی تجارتی کمپنیوں سے بڑے پیمانے پر ڈیٹا چوری کیا گیا ہے، اور اس بات کے اشارے موجود ہیں کہ رپبلکن پارٹی کی اکثریت والی کانگریس اس نئے قانون کو منظور کر لے گی۔ صدر اوباما نے منگل کے روز کہا ’ہمیں ان لوگوں سے ایک قدم آگے رہنا ہے جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ سائبر حملے فوری اور بڑھتا ہوا خطرہ ہیں۔‘ امریکی صدر ایسے قانون کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں جس میں حکومت اور نجی ادارے سائبر حملوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کر سکیں، اور سائبر مجرموں کے خلاف موجود قانونی فریم ورک کی تجدید کی جا سکے۔وہ کئی برسوں سے سائبر سکیورٹی کو بہتر بنانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں، اور انھیں امید ہے کہ اس بار رپبلکن پارٹی کے ساتھ اتفاقِ رائے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اعلان اس کے ایک دن بعد آیا ہے جب امریکی سینٹرل کمانڈ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہیک کر لیا گیا تھا۔ ہیکروں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا تعلق دولتِ اسلامیہ سے ہے۔ نومبر میں ہیکروں نے سونی پکچرز کا خفیہ ڈیٹا چوری کر کے آن لائن نشر کر دیا تھا۔ اس کے لیے علاوہ ہوم ڈپو اور ٹارگٹ بھی ایسی امریکی کمپنیاں ہیں جو ہیکروں کا نشانہ بن چکی ہیں۔

 ایمز ٹی وی (فارن ڈیسک) اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ملا فضل اللہ کو ایک ایگزیکٹو آرڈر (ای او) 13224 کے تحت عالمی دہشت گردی قرار دیا گیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ملا افضل اللہ کو نومبر 2013 میں ٹی ٹی پی کا کمانڈر مقرر کیا گیا تھا۔ ملا فضل اللہ کے امیر بننے کے بعد کالعدم تنظیم کی جانب پاکستان میں کئی دہشت گردی کی کارروئیوں کی ذمہ داری قبول کی گئی۔ گذشتہ سال 16 دسمبر کو پشاور میں ایک آرمی پبلک اسکول پر کی ذمہ داری اس گروپ نے بھی قبول کی تھی۔اس سے قبل ملا فضل اللہ ستمبر 2013 میں جنرل نیازی کے قتل اور 2012 میں ملالہ یوسفزئی پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کر چکے ہیں۔۔اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ٹی ٹی پی کو 2010 میں عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر چکی ہے۔اس کے علاوہ ٹی ٹی پی اقوام متحدہ کی القاعدہ سینکشن کمیٹی1267/1989 کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

ایمزٹی وی ( کھیل) یسٹ کرکٹ کو الوداع کہنے والے بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان اور وکٹ کیپر مہندر سنگھ دھونی کے فیصلے سے بہت سے کرکٹ کے شائقین اب بھی سکتے میں ہیں۔
اب بڑا سوال یہ کہ بھارتی ٹیسٹ کرکٹ میں ایک اچھے وکٹ کیپر اور ایک بہترین بلے باز کے طور پر ان کی جگہ کون لے سکےگا ردھمان ساہا اور نمن اوجھا جیسے بعض نئے کھلاڑیوں کے نام زیر بحث ضرور ہیں لیکن ان کے لیے دھونی جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا یا ان جیسی کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہے دھونی کا متبادل تلاش کرنے سے پہلے ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی کارکردگی پر نظر ڈالنا ضروری ہے دھونی اپنے پانچویں ون ڈے میچ میں ہی پاکستان کے خلاف 148 رنز بنا کر راتوں رات ہیرو بن گئے تھے اور اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری بھی پاکستان کے خلاف ہی بنائی تھی۔ اتفاق سے یہ ان کا پانچواں ٹیسٹ میچ تھا اور انھوں نے اس میں بھی 148 کی ہی اننگ کھیلی تھی۔