ایمز ٹی وی(کراچی)پیپلزپارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے نواز شریف کی سیاست نے ہی ان کو نقصان پہنچایا ہے ،نواز شریف کی سب سے بڑی غلطی ان کا تکبر ہے اس تکبر نے ان کو مارا،ہم فرشتے نہیں ہم سے بھی کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما کا کہنا تھاوزارت عظمیٰ کے امیدوارکیلئے اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت جاری ہے،ہوسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی اورپی ٹی آئی کاوزارت عظمیٰ کیلئے امیدوارمشترکہ ہولیکن متفقہ امیدوارلانے کافیصلہ عمران خان کے رویے پرمنحصرہے،اگر عمران خان نے دشمنی والا رویہ رکھا تومشترکہ امیدوارنہیں ہوگا۔
پی پی رہنما نے کہا نوازشریف اس بحران کوپہلے بھی ٹال سکتے تھے،گھسیٹ کراقتدارچلانے سے بہترتھا نوازشریف پہلے استعفا دے دیتے،نوازشریف عدالتی فیصلے سے پہلے عہدے سے الگ ہوجاتے وہ باوقارطریقہ تھا،ان کا کہنا تھا عمران خان نے جب دھرنا دیا تو ہم نے جمہوریت کا ساتھ دیا،بھٹو صاحب سے لے کر آج تک ہماری بنیادی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوئی ہیں
ایمزٹی وی (اسلام آباد)تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں 700 سے زائد صفحات پر مشتمل جواب میں حنیف عباسی کے ممنوعہ و غیرملکی فنڈنگ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بدنیتی پر مبنی قرار دیا۔ پی ٹی آئی نے اپنے جواب میں کہا کہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے اور پارٹی کے اکاوٴنٹس کا آڈٹ ماضی کا حصہ بن چکا ہے، تمام تفصیلات عدالت کو فراہم کر دی ہیں، شفافیت کے لئے بیرون ملک فنڈ ریزنگ کی گئی۔ تحریک انصاف نے کہا کہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی بیرون ملک فنڈ ریزنگ کی ہے لیکن تفصیلات فراہم نہیں کیں، یہ الزام لگا کر پاکستان کی اقلیتی برادری کے منہ پر طمانچہ مارا گیا کہ پی ٹی آئی نے غیرمسلموں سے ممنوعہ اور غیرملکی فنڈنگ لی، درحقیقت تحریک انصاف نے دوہری شہریت رکھنے والوں سے فنڈز اکٹھے کیے، پی ٹٰی آئی کی فارن ایجنٹ کمپنی کو ذرائع سے ملنے والے فنڈ ممنوعہ یا غیرملکی نہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ حنیف عباسی کے الزامات بدنیتی پر مبنی ہیں اور انہوں نے اپنے الزامات ثابت کرنے کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیئے۔
ایمزٹی وی (اسلام آباد)سپریم کورٹ میں جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں3 رکنی بنچ نے ڈاکٹرعاصم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کی۔ ڈاکٹرعاصم کے وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف پیش کیا کہ ڈاکٹرعاصم کی طبیعت انتہائی ناساز ہے اور وہ علاج کے لئے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔ نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عاصم کو ضمانت طبی بنیادوں پر ملی اس لئے ہم اس کی منسوخی چاہتے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آتی کہ ہر بڑے آدمی کو بیماری کا سرٹیفیکیٹ کیسے مل جاتا ہے ہر میڈیکل بورڈ کہتا ہے کہ بڑے آدمی کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔
جسٹس دوست محمد نے کہا کہ یہ معاملہ 1980 سے شروع ہوا جب عدالت نے ایک مرگی کے مریض کی ضمانت منظور کی تھی اور آج تک ہر ملزم مرگی کا سرٹیفکیٹ لے کر آجاتا ہے۔
عدالت نے نیب اور وزارت داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا جب کہ ضمانت منسوخی سے متعلق نیب کی درخواست پر ڈاکٹرعاصم کو نوٹس جاری کیا گیا اور کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔