پیر, 29 اپریل 2024


مردہ انسانوں سےکھادتیارکرنےوالی فیکٹری کی تعمیرشروع

aمانیٹرنگ ڈیسک: ایک امریکی کمپنی نے باقاعدہ لائسنس کے تحت مردہ انسانی جسموں کو گلا سڑا کر کھاد اور دوسرے مفید مادّوں میں تبدیل کرنے کے لیے سیاٹل، واشنگٹن میں فیکٹری کی تعمیر شروع کردی جو 2021ء میں اپنے کام کا آغاز کردے گی۔

دنیا میں عام طور پر مرنے والے انسانوں کو یا تو زمین میں دفنا دیا جاتا ہے یا پھر ان کی لاش جلا کر راکھ بنا دی جاتی ہے۔ تاہم، یہ بات بھی درست ہے کہ کسی بھی دوسرے جاندار کی طرح انسانی جسم بھی ایسے مفید مادّوں سے بھرپور ہے کہ جو اگر زمین میں شامل ہوجائیں تو معیاری کھاد کا کام کرتے ہوئے، زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ البتہ، قانون کی رُو سے اب تک ایسا کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

واضح رہے کہ مردہ جانوروں اور فضلے کے گل سڑ کر کھاد اور دوسرے نامیاتی مادّوں میں تبدیل ہونے کا عمل سائنسی زبان میں ’’کمپوسٹنگ‘‘ کہلاتا ہے۔ جانوروں، پودوں اور فضلے کی کمپوسٹنگ کے سیکڑوں کارخانے اس وقت دنیا بھر میں کام کررہے ہیں جبکہ کمپوسٹنگ کے دوران خارج ہونے والی حرارت سے بجلی بھی بنائی جاسکتی ہے

’’ریکمپوز‘‘ کے نام سے قائم ہونے والی یہ کمپنی خود کو دنیا میں ’’انسانی کمپوسٹنگ کا پہلا کارخانہ‘‘ بھی قرار دیتی ہے کیونکہ اس سے پہلے تک انسانی کمپوسٹنگ کےلیے کوئی کمپنی یہ کام باضابطہ اور قانونی طور پر نہیں کررہی تھی۔

 ویسے تو یہ کمپنی برسوں پہلے قائم کردی گئی تھی لیکن اسے امریکی ریاست واشنگٹن میں ایک حالیہ قانون منظور ہونے کے بعد ہی کام کی اجازت ملی ہے۔ اس قانون کے تحت ریاست واشنگٹن میں انسانی کمپوسٹنگ کو قانونی حیثیت دی گئی ہے۔

ریکمپوز کا کہنا ہے کہ انسانوں لاشوں کو تلف کرنے کا یہ طریقہ سب سے زیادہ ماحول دوست ہے جبکہ مرنے والے کے لواحقین کو اطمینان رہے گا کہ ان کے متوفی عزیز کا جسم ختم ہو کر ضائع نہیں ہوا بلکہ کسی مفید کام میں استعمال ہوگیا۔

 فی الحال انسانی کمپوسٹنگ کے اس اوّلین کارخانے کی صرف تھری ڈی تصاویر اور نقشے ہی موجود ہیں جنہیں اولسن کنڈگ نامی آرکٹیکٹ نے بنایا ہے۔ اصل کارخانہ بھی اسی مطابقت میں تیار کیا جائے گا۔ جہاں ایک وقت میں 100 سے کچھ زیادہ لاشوں کی کمپوسٹنگ کی گنجائش ہوگی۔
 
تاہم یہ سب کچھ بالکل مفت میں نہیں ہوگا بلکہ ہر ایک لاش کی کمپوسٹنگ پر 5500 ڈالر معاوضہ لیا جائے گا۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment