جمعرات, 16 مئی 2024


افسانہ نگاری کا سنہرا باب

 

ایمز ٹی وی(انٹرٹینمںٹ) باسٹھ برس گزر جانے کے بعد بھی ممتاز ادیب اور افسانہ نگارسعادت حسن منٹو کا نام آج بھی ترو تازہ ہے۔ 11مئی 1912 کو جالندھر میں آنکھ کھولنے والے سعادت حسن منٹو نے زندگی کی صرف 42 بہاریں دیکھیں مگر اپنی تحریروں سے صدیوں کی زندگی پا گئے ۔ سعادت حسن منٹو پر رندانہ جراتوں کے بہت الزامات لگےبہت ملامتیں بھی پائیں مگراپنے ادبی شہ پاروں کی بدولت دنیا ئے ادب میں انتہائی بلند مقام کے حقدار ٹھہرے۔ ماضی کی روایات سے بغاوت ، معاشرے کی تلخ تصویر کشی ،انسانی فطرت کےمتنازع پہلوؤں پر جراتمندانہ اظہار ،ہر لفظ ، ہر جملے میں نشتر سی کاٹ ، ایک تصویر ابھرے گی، ٹھنڈا گوشت ، حج اکبر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسے ادبی شاہکاروں کے خالق سعادت حسن منٹو ہی ہیں۔ انہوں نے ڈھائی سوسے زائدافسانے ، کہانیاں اور خاکے لکھےجن میں سےپانچ افسانوں کو فحش قرار دے کر تعزیربھی لگا ئی گئی ۔ شدید تنقید اورملازمتوں کا سامنا کرنے والےمنٹو کی ادبی عظمتوں کا بالا آخر دنیا کو اعتراف کرنا پڑا ۔ ان کے نام کےڈاک ٹکٹ ہی جاری نہ ہوئے بلکہ نشان امتیاز کے حق دار بھی ٹھہرے۔ افسانہ نگاری کا یہ بےتاج بادشاہ 18 جنوری 1955ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے منہ موڑ گیا ۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment