ھفتہ, 27 اپریل 2024

Displaying items by tag: Health

ایمزٹی وی(صحت)طبی ماہرین کے مطابق شوگر کیلئے زیتون کا تیل انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر کیلئے زیتون کا تیل انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے جس سے مرض پر قابو پانے میں مدد حاصل ہوتی ہے۔ Diabetes_blood_tes_2632113b انہوں نے کہا کہ زیتون کے تیل کے باقاعدہ استعمال سے انسانی پتہ بہتر طور پر کام کرنا شروع کر دیتا ہے، جس سے شوگر کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ Blood sugar test اسی طرح زیتون کا تیل خون میں شامل شوگر کی زائد مقدار کو ختم کرنے اور انسانی جسم میں انسولین کی پیداوار کو بھی بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صبح ناشتہ سے قبل اور رات کو سونے سے پہلے زیتون کا تیل شوگر کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے

ایمزٹی وی(صحت)طب کی دنیا میں آئے روز نت نئی ایجادات سے لاعلاج سمجھی جانے والی بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین طب ان بیماریوں کے اسباب جاننے کیلئے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ حال ہی میں کینسر سے متعلق کی گئی ایک تحقیقق سے حیرت انگیز انکشاف سامنے آیا۔ اس تحقیق کے نتائج کے مطابق جلد کے کینسر کی بیماری کا بڑا سبب ہمارے مالی حالات سے ہوتا ہے۔ یعنی جو جتنی پرآسائش زندگی گزارے گا،جلد کے کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔

نیویارک اسٹیٹ کینسر رجسٹری نے16امریکی ریاستوں سے ڈیٹا اکٹھا کر کے تحقیق کی جس کے مطابق مالی طور پر آسودہ افراد کو جلد کے کینسر کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ جو لوگ ساحل سمندرپر اپنا زیادہ وقت گزارتے ہیں یا گالف وغیرہ کھیلتے ہیں انہیں یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق زیادہ گاڑی چلانے والے بھی اس مرض کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ سامنے ونڈ اسکرین تو سورج کی مضر شعاؤں (الٹرا وائلٹ ریز) کو روک لیتی ہے لیکن گاڑی کے سائیڈ کے شیشوں کی وجہ سے جلد کے سرطان کا مسئلہ رہتاہے۔

ایسی ادویات بھی وجہ قرار پائی ہیں جن کے مضر اثرات کے باعث انسانی جلد الٹروائلٹ ریزکے خلاف کمزور ہوجاتی ہے۔ان ادویات میں امراض قلب کی ادویات اور جلد پر لگانے والی کریمیں بھی شامل ہیں۔

ایمزٹی وی(لاہور) محکمہ صحت پنجاب نے تمام سرکاری اسپتالوں سے ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

صوبے بھر کے سرکاری اسپتالوں سے گیارہ سو ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کی سیٹیں خالی کرانے کیلئے نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ صحت پنجاب نے تمام سرکاری اسپتالوں میں ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سلسلے میں خالی سیٹوں پر دوبارہ ڈاکٹروں کی بھرتی پر بھی پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے

جمعرات, 14 جولائی 2016 10:08

بیکٹیریا بجلی پیدا کریں گے

ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی)انسان کی حرکی توانائی یعنی چلنے کے دوران قدموں کی حرکت کو برقی توانائی میں تبدیل کرنے والا نظام کئی برس قبل تیار کرلیا گیا تھا۔ حال ہی میں امریکی فوجیوں کے لیے ایسا خصوصی سسٹم بنایا گیا جس کے ذریعے چلنے کے دوران ان کی ٹانگوں کی حرکت سے اتنی مقدار میں بجلی پیدا ہوگی جس سے موبائل فون اور اسی نوع کے چھوٹے برقیاتی آلات چارج کیے جاسکتے ہیں۔ جان داروں کی حرکی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرنے کے ضمن میں تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔

اس سلسلے میں پیش رفت کرتے ہوئے سائنس دانوں نے یک خلوی جان داروں کی حرکت کو برقی توانائی میں تبدیل کرنے کا راستہ تلاش کرلیا ہے۔ دوران تجربات سائنس دانوں نے بیکٹیریا کی قدرتی حرکات سے خرد بینی ’ونڈ فارم‘ بنانے کا مظاہرہ کیا۔ ماہرین کو یقین ہے بیکٹیریا کی حرکت مستقبل قریب میں اسمارٹ فونز کو چارج کرسکے گی۔ یہ تحقیق اوکسفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ اگر اس تیکنیک کو بڑے پیمانے پر کام میں لایا جاسکے تو توانائی کی عالمی ضرورت پوری کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

سائنس دانوں نے کمپیوٹر سمولیشن کے ذریعے دکھایا کہ ٹھوس حرکی اجسام جیسے بیکٹیریا کو بیلن نما (cylindrical ) روٹرز کی شکل دی جاسکتی ہے جو مستقل توانائی فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ یعنی یہ بیلن نما روٹرز بجلی گھر کے طور پر عمل کریں گے۔ مستقبل میں یہ بجلی گھر انتہائی مختصر جسامت کے آلات یا ڈیوائسز میں خردبینی انجن کا کام کریں گے۔ یہ آلات ازخود چارج ہونے والے ہوں گے جیسے اسمارٹ فون یا مائیکروفون وغیرہ۔

اوکسفرڈ یونیورسٹی میں شعبۂ طبیعیات کے پروفیسر ڈاکٹر ٹیلر شینڈرک کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر معاشرے کو بڑے پیمانے کے علاوہ چھوٹی سطح پر بھی توانائی کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ کارخانوں، فیکٹریوں اور گھروں کو رواں رکھنے کے علاوہ چھوٹے چھوٹے آلات کو بجلی کی فراہمی میں چینلج درپیش ہیں۔ چھوٹی سطح پر یعنی خردبینی مشینوں کے لیے توانائی کی فراہمی کا ایک ممکنہ طریقہ بیکٹیریا جیسے حیاتیاتی نظام ہوسکتے ہیں۔ فضا میں تیرتے ہوئے بیکٹیریا یا جراثیم عام طور پر بے ترتیب ہوتے ہیں۔ بے ترتیبی کی حالت میں ان سے توانائی کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا۔ انھیں منظم کرنے کے لیے سائنس دانوں نے بیکٹیریا سے بھرے ہوئے کنٹینر میں خاص طور سے تیارکردہ انتہائی باریک موٹریں داخل کیں۔ ان کی موجودگی میں خرد بینی جان داروں نے خود کو اس انداز سے منظم کرلیا کہ ان کی حرکت سے موٹریں مخالف سمتوں میں گھومنے لگیں۔ نتیجتاً ایک ونڈ فارم وجود میں آگیا جس سے توانائی حاصل کی جاسکتی تھی۔

ڈاکٹرشینڈرک کے مطابق برائے نام توانائی فراہم کرنے والے یہ جراثیمی ونڈفارم اس لیے اہم ہیں کہ ان سے برقی رَو حاصل کرنے کے لیے انھیں توانائی مہیا نہیں کرنی پڑے گی بلکہ کام کرنے کے لیے یہ طاقت و توانائی اپنے اندرونی بایوکیمیکل پروسیس سے حاصل کریں گے۔ سائنس دانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل قریب میں وہ اس تحقیق کو قابل عمل شکل دینے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ جراثیمی ونڈ فارمز سے بجلی کے حصول کا ٹھوس نظام وضع کرلیں گے۔

ایمزٹی وی(صحت)ماہرین نے اس نئی دریافت کو معجزانہ قرار دیا ہے۔ اسے دریافت کرنے والے سوئزرلینڈ کے ماہرین کا کہنا ہےکہ بڑھاپے کو دیرتک ٹالنے کے سلسلے میں ان کی تحقیق ایک اہم سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق انار میں دریافت نئے اجزا پٹھوں اور مسلز کو جوان رکھتے ہیں اور بوڑھے لوگ ان کے استعمال سے کسی کے محتاج نہیں رہتے۔ ماہرین کے مطابق ہمارے خلیوں میں ایک اہم حصہ مائٹوکونڈریا ہوتا ہے جو اسے توانائی فراہم کرتے ہوئے بیٹری کا کام کرتا ہے، انار کے استعمال سے عمر کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتا ہوا مائٹوکونڈریا بہت دیر تک توانا رہتا ہے اور پٹھے تادیر مضبوط رہتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انار میں موجود یہ کیمیکل آنتوں میں موجود مفید بیکٹیریا سے مل کر یورولیتھن اے بناتا ہے اور خلیات کو جوان اور پٹھوں کو مضبوط رکھتا ہے، انارہڈیوں کو مضبوط بنانے، دل کو طاقت دینے اور بلڈ پریشر بھی کم کرنے میں انتہائی مفید ثابت ہوئے ہیں۔

ایمزٹی وی(صحت)جدید تحقیق کے مطابق ماحول میں پارہ اورسیسہ، زراعت میں استعمال ہونے والی کیڑے مارادویہ میں شامل آرگینوفاسفیٹ، پولی برومینیٹڈ ڈائی فینائل ایتھرز(پی بی ڈی ایز) اورپلاسٹک بوتلوں کا عام کیمیکل فیلیٹس اور میک اپ کے اجزا بھی بچوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق تیز رفتار صنعتی زندگی نے بچوں اور بڑوں کو مضر کیمیکلز سے گھیرلیا ہے۔ اگرچہ ان میں سے کئی کیمیکلز پر پابندی عائد کی جاچکی ہے لیکن عشروں بعد اب بھی وہ ماحول میں موجود ہیں اور انسانوں کو متاثر کررہے ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین ایک عرصے سے پلاسٹک کی بوتلوں اور فیڈر میں موجود فلیٹس مرکبات کا جائزہ لے رہے ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ شیرخوار بچوں اور حاملہ ماؤں میں یہ کیمیکل مضر اثرات مرتب کرتا ہے، بچوں کی دماغی نشوونما کو متاثر کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف الینوائے کی پروفیسر کے مطابق مضر کیمیائی اجزا ہمارے گھر اور ہماری اطراف میں موجود ہیں، کوشش کی جائے کہ بچوں کے مستقبل کے لیے ان کیمیکلز سے دور رہنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ مضر کیمیکلز سے دور رہا جائے اور خصوصاً بچوں کو ان سے دور رکھا جائے کیونکہ اپنی پیدائش کے کئی سال بعد بھی بچوں کا دماغ بنتا اور پروان چڑھتا رہتا ہے۔

ایمزٹی وی(صحت)امریکی ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں واقع نیشنل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ایگزامنیشن سروے ( این ایچ این ای ایس) کی تازہ تحقیق کہتی ہے کہ ریشے دار غذائیں پھیپھڑوں کو تندرست اور سانس کی نالی کو درست رکھتی ہیں۔ اس ادارے نے حال ہی میں 2 ہزار افراد پر کئے گئے سروے کو شائع کیا ہے جس کے مطابق جن افراد نے اپنی خوراک میں فائبر یعنی ریشے دار خوراک کو ذیادہ رکھا ان کے پھیپھڑوں میں 68 فیصد بہتری دیکھی گئی جو نارمل کے مقابلے میں کہیں ذیادہ تھی۔ جن لوگوں نے ریشے والی خوراک کم کھائی تھیں ان میں سے صرف 50 فیصد افراد کے پھیپھڑے ہی درست اور پوری استطاعت سے کام کر رہے تھے، فائبر سے بھرپور غذائیں کھانے والے صرف 14 فیصد افراد کو سانس لینے میں کچھ دقت تھی جب کہ نہ کھانے والے والے 30 فیصد لوگوں میں یہ کیفیت دیکھی گئی۔ تحقیقی سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب پھیپھڑوں کا روایتی ٹیسٹ کرایا گیا تو ریشے دار خوراک کھانے والوں نے یہاں بھی بہترین کارکردگی دکھائی، اس ٹیسٹ کو مختصراً ایف وی سی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پھیپھڑوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے اور خوراک کے ذریعے ان کی دیکھ بھال کی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ ریشے دار خوراک امراضِ قلب، بلڈ پریشر اور دیگر امراض سے بچاتی ہے۔ اس کے علاوہ پورے نظامِ ہاضمہ کی صحت بھی فائبر سے بہتر ہوتی ہے۔ سیب، شاخ گوبھی، ناشپاتی، گاجر، پالک، دلیہ، دو دالہ سبزیوں مثلاً تمام اقسام کی لوبیہ، السی کے بیج، پتے والی سبزیوں اور رسبری میں فائبر کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے۔

ایمزٹی وی(صحت)’’ماں کی گود، بچے کی اوّلین تربیت گاہ ہے،‘‘ پاکستان اور جنوبی افریقا کے ماہرین کی حالیہ تحقیق سے اس پرانے مقولے کی سچائی ایک بار پھر ثابت ہوئی ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر عائشہ یوسف زئی کی قیادت میں پاکستانی دیہاتوں میں مقیم 1,302 غریب بچوں پر ایک مطالعہ کیا گیا، جس سے پتا چلا کہ اگر مائیں اپنے 2 سالہ بچوں کے 4 سال کی عمر میں پہنچنے تک ان پر توجہ رکھیں تو بڑی عمر میں یہ بچے زیادہ قابل اور کامیاب ثابت ہوسکتے ہیں۔ مطالعے میں شریک بچوں کی ماؤں کو تربیت دی گئی کہ کھیل کود اور بات چیت کے دوران بچوں کا مشاہدہ کیسے کیا جائے، اور ان کی مختلف حرکات و سکنات پر کس طرح ردِعمل کا اظہار کیا جائے۔ والدین اور بچوں میں بہتر رابطے سے یہ فائدہ ہوا کہ 4 سال کی عمر تک پہنچنے پر بچوں میں اکتساب (سیکھنے کی صلاحیت)، ذہانت، سماجی کردار، توجہ، یادداشت، خود پر قابو اور مزاج میں لچک جیسی خصوصیات بھی واضح طور پر بہتر ہوئیں۔ اس دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ بچوں کا خیال رکھنے اور ان کی تربیت کے معاملے میں والدین ہی زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔ اس مطالعے کے نتائج ’’دی لینسٹ گلوبل ہیلتھ‘‘ میں آن لائن شائع ہوئے ہیں۔ ایک اور مطالعے میں، جو یونیورسٹی آف گلاسگو کی جانب سے جنوبی افریقا کے بچوں پر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر مائیں اپنے نوزائیدہ بچوں کو صرف 6 ماہ تک دودھ پلائیں تو وہ زیادہ فرمانبردار، سمجھدار اور ذہین ہوتے ہیں۔ اس مطالعہ کے نتائج آن لائن تحقیقی جریدے ’’پبلک لائبریری آف سائنس، میڈیسن‘‘ (PLoS Medicine) چند روز پہلے شائع ہوئے ہیں۔ اخلاقی اور مذہبی نقطہ نگاہ سے شاید ان مطالعات میں کوئی نئی بات نہ ہو؛ مگر ان سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا ہے کہ مذہب کی اخلاقی تعلیمات، دنیاوی اعتبار سے بھی ہمارے لئے بے حد مفید ہیں۔

ایمز ٹی وی(صحت)نئی تحقیق کے مطابق ڈی ہائیڈریشن کا شکار بچوں کو مہنگے مشروبات کے بجائے سیب کا جوس پلانے سے زیادہ طبی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ٹورنٹو میں کی جانے والی اس تحقیق میں 6 ماہ سے 5 سال کے 650 ایسے بچوں کو شامل کیا گیا، جنہیں ہیضہ اور قے کی شکایت پر ایمرجنسی روم میں لایا گیا۔ آبیدگی (ہائیڈریشن) کے لئے ان بچوں کو دو گروپوں میں تقسیم کرکے ایک کو سیب کا جوس جبکہ دوسرے گروپ کو مہنگے مشروبات یا ادویات پلائی گئیں۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے ایک ہفتہ بعد ادویاتی مشروبات استعمال کرنے والے 9 فیصد جبکہ سیب کا جوس پینے والے صرف اڑھائی فیصد بچوں کو دوبارہ ڈاکٹرز سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کے علاوہ ہیضہ اور قے کی مقدار بھی دونوں طرح کے مشروبات استعمال کرنے والے بچوں میں برابر تھی۔ اس سلسلہ میں محققین کا کہنا ہے کہ جدید تحقیق ڈی ہائیڈریشن کے لئے پہلے سے موجود روایتی علاج سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ ڈی ہائیڈریشن میں دو سال یا اس سے زیادہ عمر کے بچوں کے لئے سیب کا جوس بہت زیادہ مفید ہے۔ اس سے قبل یہ تاثر عام تھا کہ بہت زیادہ میٹھے مشروب کا استعمال ہیضہ کو بڑھاوا دیتا ہے، لیکن اس تحقیق نے اس تاثر کو بھی زائل کر دیا ہے۔ تاہم محققین ڈی ہائیڈریشن کا مسئلہ پیچیدہ ہونے کی صورت میں گھر پر ہی سیب کے جوس کے استعمال کے بجائے فوری طور پر ڈاکٹرز سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔

ایمز ٹی وی(صحت)ہفت روزہ سائنسی جریدے’ نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس ویکسین سے خود جسم کے دفاعی نظام کو مضبوط بناکر کینسرسے لڑنے کے قابل بنایا جاسکے گا۔ ماہرین کے مطابق اس کے آزمائشی طور پر حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے جس کے بعد اس ویکسین کے ذریعے انسان کے جسم کو کینسرسے لڑنے اور اس سے دفاع کے قابل بنانے کی راہ ہموار ہوسکے گی۔

ماہرین کے مطابق کینسر خلیات (سیلز) بھی عام خلیات کی طرح ہوتے ہیں لیکن جسم کا دفاعی نظام انہیں نظرانداز کردیتا ہے، کینسر پھیلتے وقت جلن اور تکلیف کے سگنل خارج کرتا ہے اور اس طرح امنیاتی نظام کو بیدار کرسکتا ہے۔ ہالینڈ کی ریڈ باؤنڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق انسانوں پر اس کی مزید آزمائش بہت اہم اور دلچسپ ہوگی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امیونوتھراپی کینسر کے علاج میں امید کی نئی کرن ہے کیونکہ اس کے غیرمعمولی نتائج سامنے آئے ہیں۔