منگل, 16 اپریل 2024


سرسیدیونیورسٹی کےزیرِاہتمام سیلاب زدگان کےامدادی پروگرام کی بریفنگ

کراچی: سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے زیرِ اہتمام سیلاب زدگان کےامدادی پروگرام کی بریفنگ کا انعقاد کیاگیا

جس میں سرسیدیونیورسٹی کی امدادی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا ۔

وزیراعلیٰ سندھ کے پرائیوٹ سیکریٹری اسپیشل اسسٹنٹ شہباز الرحمن خان نے کہا کہ میں مروجہ نظام کا دفاع تو نہیں کروں گا کیونکہ ریاست کا نظام ایک تسلسل ہوتا ہے،ایک اجتماعی کوشش ہوتی ہے ۔ تاہم کراچی کی طرف سے امدادی سامان، متاثرین تک پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے اثرات مستقبل میں نظر آئیں گے ۔ شہرِ قائد یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس قدر مہنگائی کے باوجود، معاشی اور سماجی تنگیوں سے نڈھال لوگ سیلاب زددگان کی دل کھول کر مدد کررہے ہیں اور شہر کراچی سے ٹرک کے ٹرک بھر کر جارہے ہیں ۔

اس ضمن میں سرسید یونیورسٹی بھی ایک اہم کردار ادا کررہی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کو وہی لوگ بچائیں گے جنھوں نے علی کے گڑھ سے شروعات کیں اورجو علی کی اقدار اور روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔

پاکستان انجینئرنگ کونسل سندھ کی گورننگ باڈی کے ممبر انجینئر محمد یوسف قائم خانی نے کہا کہ سرسیدیونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء لائقِ تحسین ہیں جو امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔ پاکستان کے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں اورملک جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے، اس پس منظر میں لوگوں کی آگے بڑھ کر مدد کر رہے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ تمام امداد سیلاب زدگان تک پہنچے گی ۔سرسیدیونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین نے کہا کہ مستقبل میں عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت زیادہ بارشوں کا امکان ہے ۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی دو وجوہات ہیں ۔ ایک توبحیرہ عرب کادرجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور دوسرے ملک کے شمال میں گلیشیئرز پگھلنے لگے ہیں جو سیلاب لانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں ۔ قدرتی آفات سے نمٹنے اور بچنے کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا ادارہ تشکیل دیا گیا تھا مگر اس کی کوئی جامع اور مربوط حکمتِ عملی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ جوحالات 2010 کے سیلاب کے وقت تھے وہی معاملات جوں کے توں تھے یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ تباہی پہلے سے زیادہ ہوئی ۔ کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں تھی، نہ ہی متعلقہ اداروں کا کوئی موثر کردار دیکھنے میں آیا ۔ نکاسی آب کا نظام موثر و فعال نہیں ہے جس کی وجہ سے تباہی زیادہ ہوئی ۔ ادارے جس مقصد کے لیے تشکیل دئے جاتے ہیں ، اس کو اولیت دی جانی چاہئے ۔

انھوں نے بتایا کہ جامعات کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ سرسید یونیورسٹی زیر اہتمام این ای ڈی سمیت دیگر جامعات کے تعاون اور اشتراک سے قدرتی آفات سے نمٹنے اور اس سے بچاءو کے بارے میں مختلف سیمینارز منعقد کرائے جائیں گے ۔ شعبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات اور تحقیقات سے استفادہ کرتے ہوئے اس بات کی پلاننگ کرنی ہوگی کہ سیلاب کے پانی کو کس طرح قابو میں کیا جائے اور آبادیوں کو بچاتے ہوئے اس کا رخ سمندر کی طرف موڑا جائے ۔

رجسٹرار سید سرفراز علی نے کہا کہ زندہ قوموں کی شناخت اس وقت ہوتی ہے جب وہ برے وقت میں انسانوں کی مدد کرتے ہیں ۔ سرسید یونیورسٹی سیلاب کے متاثرین کے لیے مختلف سامان اکھٹا کر رہی ہے ۔ ہم مختلف این جی اوز کے ساتھ مل کر متاثرین کی بحالی اور رہائش کے لیے سستے گھر فراہم کرنے کے لیے کام کررہے ہیں ۔

زراعت اور کاروبار کے لیے بھی ہرممکن امدادفراہم کی جائے گی ۔علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری انجینئر محمدارشد خان نے کہا کہ کسی کے کام آنا عبادت اور نیک کام ہے ۔ سرسید یونیورسٹی کے اساتذہ اورطلباء یہ نیک کام پوری جانفشانی اور تندہی سے کر رہے ہیں ۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment