منگل, 23 اپریل 2024


پاناما کیس کی سماعت نعیم بخاری کے دلائل مکمل

 


ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جاری ہے
تفصیلات کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے پاناما کیس کی چھٹی مسلسل سماعت کے دوران گزشتہ پانچ روز سے جاری تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سماعت میں وقفہ کر دیا ہے۔ اس وقت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے دلائل جاری ہیں ۔
سماعت شروع ہوتے ہی تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل کا سلسلہ گزشتہ روز سے جوڑتے ہوئے موقف اپنایا کہ نوازشریف اور بچوں کے بیانات میں تضاد ہے ۔ بیئرر سرٹیفکیٹ پرائز بانڈ نہیں ہوتا بلکہ اس کا حامل ہی آف شور کمپنی کا مالک ہوتا ہے اور قانون کے مطابق بیئررسرٹیفکیٹ سے متعلق بتانا ضروری ہے جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ غالباُُ یہ قانون 2002ءمیں آیا تھا۔

قانون دان نعیم بخاری نے کہا کہ فلیٹس ٹرانسفر تک بیئرر سرٹیفکیٹس کا ریکارڈ دینا ہو گا ۔ شریف فیملی کو سرٹیفکیٹ قطری خاندان کے پاس ہونے کا ثبوت دینا ہو گا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا کمپنی رجسٹریشن کے قانون کا اطلاق پہلے سے موجود کمپنیوں پر ہوتا ہے تو نعیم بخاری نے جواب دیا کہ رجسٹریشن کے نئے قانون کا اطلاق سب پر ہوتا ہے ۔شریف خاندان کے بقول2006ءسے قبل بیئرر سرٹیفکیٹ قطری خاندان کے پاس تھے تو شریف خاندان کو ثابت کرنا ہو گا کہ ان کا ہر کام قانون کے مطابق ہوا ۔ مریم نواز کے پاس آف شور کمپنیوں کیلئے پیسہ نہیں تھا اوربلیک لاءڈکشنری کے مطابق زیر کفالت وہ ہوتا ہے جسکے اخراجات دوسرا برداشت کرے ۔ آف شور کمپنیوں کے لئے مریم کو رقم نوازشریف نے دی وہ اپنے والد کے زیر کفالت ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف نے مریم کو کروڑوں روپے بطور تحفہ دیے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ بخاری صاحب آپکی تعریف مان لیں تو کیا مریم حسین نواز کے زیر کفالت ہیں ؟
جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا کہ کیا والد کے ساتھ رہنے والا زیر کفالت ہوتا ہے ۔نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ کیپٹن صفدر کی ریکارڈ کے مطابق کوئی آمدن نہیں تھی اور ہر کوئی چاہتا ہے کہ شادی کے بعداسکی بیٹی کی کفالت شوہر کرے ۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ ابھی بھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ فلیٹس کب خریدے گئے ؟ نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت سے وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ چاہتے ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ بخاری صاحب آپکے بقول شریف خاندان نے فلیٹس 1993ءاور 1996ءکے درمیان خریدے ۔ شریف فیملی کے بقول انہیں فلیٹس 2006ءمیں منتقل ہوئے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں کوئی نیا نقطہ بیان کریں جس کے بعد تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ انکی کمر میں درد ہے لہذٰا انجیکشن لگوانے کیلئے 2گھنٹے کا وقفہ دیا جائے جسے عدالت نے منظور کر لیا اور شیخ رشید کو دلائل کا موقع فراہم کیا گیا جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ نعیم بخاری کے دلائل کی مکمل تائید کرتا ہوں ۔ ایک طرف مریم نواز کہتی ہیں کہ ان کی آمدن نہیں اور دوسری طرف مریم نواز امیر ترین خاتون ہیں ۔” آپ نے انصاف فراہم کرنے کا حلف لیا ہے اور عوام کی نظریں عدالت پر ہیں “۔

انہوں نے موقف اپنایا کہ یہ مقدمہ 20کرو ڑ عوام کا ہے ۔ عدالت سب کچھ جانتی ہے ہم صرف معاونت کرنے کیلئے آئے ہیں ۔اگر کوئی کسی کے زیر سایہ ہے تو زیر کفالت کہلائے گا ۔وکالت کا تجربہ نہیں غلطی ہوئی تو عدالت سے معافی چاہوں گا ۔ قطری خط رضہ بٹ کا ناول ہے ۔ پاناما کیس ایک خاندان بمقابلہ 20کرو ڑ عوام کا کیس ہے اور وزیر اعظم نوازشریف پاناما کیس میں براہ راست ملوث ہیں ۔
شیخ رشید نے موقف اپنایا کہ قطری شہزادہ شریف خاندا ن کیلئے ریسکیو 1122ہے ۔ اسحاق ڈار نے اربوں روپے دبئی منتقل کرنے کا اعتراف کیا ۔ و ہ دو افراد ان کی اہلیہ اور مریم نوا زہیں ۔ شیخ رشید کے دلچسپ دلائل پر عدالت میں قہقہے لگ گئے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں ورنہ عدالت خود سنجیدہ کرے گی ۔

شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ قطری خط بیان حلفی کے بغیر ہے ، قانون کے مطابق زبانی ثبوت براہ راست ہونا چاہئیے اور سنی سنائی بات کوئی ثبوت نہیں ہوتا ۔”قطری خط سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے “۔ قطری خط کی حیثیت ٹیشو پیپر سے زیادہ نہیں ۔ کیس کے پیچھے اصل چہرہ سیف الرحمان کا ہے ۔1980ءمیں ایک درہم کی قیمت 2روپے 60 پیسے تھی اور قطری شہزادہ مین آف دی میچ ہے ۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment