جمعہ, 19 اپریل 2024


پاکستان میں پینے کے پانی میں زہریلے مادے کی موجودگی کاانکشاف

ایمزٹی وی (صحت)عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پینے کے صاف پانی میں خطرناک اور زہریلے مادے سنکھیا (آرسینک) کی بہت زیادہ مقدار موجود ہے جس سے چھ کروڑ شہریوں کی زندگیوں کو خطرات ہیں۔عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیموں نے پاکستان بھر سے زیر زمین پانی کے 1200 نمونے جمع کرکے ان کا تجزیہ کیا جس سے معلوم ہوا کہ ان میں زہریلا مادہ سنکھیا بہت زیادہ مقدار میں ہے۔
سنکھیا یا آرسینک قدرتی طور پر پائی جانے والی معدنیات میں شامل ہے جو بے ذائقہ ہوتا ہے اور گرم پانی میں حل ہوجاتا ہے۔ کسی انسان کو ہلاک کرنے کےلئے سنکھیا کے ایک اونس کا 100 حصہ یعنی صرف 284 ملی گرام بھی کافی ہوتا ہے۔ لمبے عرصے تک سنکھیا سے آلودہ پانی استعمال کرنے کے نتیجے میں خطرناک بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں جن میں میں جلد کی بیماریاں، پھیپھڑوں اور مثانے کے سرطان کے علاوہ دل کے امراض بھی شامل ہیں۔
عالمی معیارات کے مطابق ایک لٹر پانی میں سنکھیا کی زیادہ سے زیادہ 10 مائیکرو گرام مقدار کو محفوظ قرار دیا گیا ہے جب کہ حکومت پاکستان نے یہ شرح 50 مائیکرو گرام مقرر کر رکھی ہے۔
پاکستان میں کیے گئے نئے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ بیشتر نمونوں میں سنکھیا کی مقدار 51 مائیکرو گرام فی لٹر سے 200 مائیکرو گرام فی لٹر تھی لیکن کئی نمونوں میں یہ مقدار 201 سے 972 مائیکرو گرام فی لٹر کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پانی کے ان نمونوں میں سنکھیا کی مقدار محفوظ عالمی حدود سے 5 تا 97 گنا زیادہ جب کہ خود پاکستان کے مقر کردہ معیارات کے تناظر میں محفوظ حد سے 19 گنا تک زیادہ ہے جو تشویش ناک بات ہے۔
جن علاقوں کا پانی سنکھیا کے زہر سے زیادہ آلودہ ہے وہ بطورِ خاص دریاؤں کے کناروں پر واقع ہیں جب کہ ان میں حیدرآباد کے علاوہ وسطی سندھ، بالائی سندھ، جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب کے علاقے بطورِ خاص شامل ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں سنکھیا کی مقدار خاصی کم تھی جب کہ بلوچستان میں صرف دو مقامات پر پانی میں سنکھیا کی زیادہ مقدار نوٹ کی گئی۔
اگرچہ اس مطالعے کے نتائج تشویش ناک ہیں لیکن اس کے تحت فراہم کیے گئے اعداد و شمار میں غلطی کا امکان بہت زیادہ ہے جب کہ دوسری جانب پاکستان میں بڑے پیمانے پر ایسے واقعات اب تک ریکارڈ پر موجود نہیں جنہیں پورے وثوق سے سنکھیا کی آلودگی کا نتیجہ قرار دیا جاسکے۔ اس لیے یہ مطالعہ اہم ضرور ہے لیکن غالباً اس میں تشویش کو کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment