جمعرات, 25 اپریل 2024


خوشبوکی شاعرہ پروین شاکرکومداحوں سےبچھڑے25 برس بیت گئے

اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر 14 نومبر1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔آپ نے انگلش لٹریچر اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1991 میں ہاورڈ یونیوسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی-

پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔انھوں نے بہت چھوٹی سی عمر میں شعر وشاعری کا آغاز کیا۔ بینا کے نام سے پہچانی جانی والی شاعرہ کی۔ محبت، درد، تنہائی اور فراق و وصال سے لبریز جذبات  کی حامل پہلی کتاب خوشبو  1976  میں جب منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔–اور صرف چھ ماہ کے اندراس کا پہلاایڈیشن ختم ہوگیا، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں پروین شاکر کو ادب میں بہترین خدمات پر پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈسے بھی نوازا گیا

پروین  شاکر سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنی نزاکت سے بیان نہیں کیا۔ ان کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نویسی بھی کی ان کا کالم گوشہ چشم کے نام سے شائع ہوتا تھا۔، ۔پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، کف آئینہ، ماہ تمام کو بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔ ان کی زندگی میں ہی ان کی شاعری کے انگلش، جاپانی و سنسکرت زبانوں میں ترجمے شروع ہوچکے تھے

اردو زبان کی یہ عظیم شاعرہ 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد کے نزدیک ایک ٹریفک حادثے میں صرف  42 برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں، پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ان کو ہم سے بچھڑے متعدد برس ہوچکے ہیں، مگر آج بھی ان کا نام دنیاے ادب و شعرمیں روشن و تاب ناک ہے خودپروین کوبھی اس کا ادراک ہوگا، سوانھوں نے پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ:

مربھی جاؤں توکہاں لوگ بھلا ہی دیں گے

لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment