ھفتہ, 27 اپریل 2024

Displaying items by tag: Health

ایمزٹی وی(صحت) طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سست طرز زندگی دل کے امراض کا باعث بنتا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق طبی ماہرین نے کہا ہے کہ سست طرز زندگی دل کے امراض کا باعث بنتا ہے۔ امریکا میں ٹیکساس یونیورسٹی کے طبی ماہرین کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دن بھر میں 10 گھنٹے تک بیٹھے رہنا امراض قلب کا خطرہ 8 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔

حقیق میں بتایا گیا ہے کہ سست طرز زندگی خون کے شریانوں کے امراض کا باعث بنتا ہے ، اس کے نتیجے میں جسمانی وزن بڑھتا ہے جو مختلف بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔تحقیق کے مطابق جسمانی سرگرمیاں بلڈ پریشر، کولیسٹرول کی سطح کو کم، جب کہ صحت مند وزن کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں دل کے دورے یا فالج کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسمانی طور پر متحرک زندگی گزاریں۔اس تحقیق کے دوران طبی ماہرین نے 7 لاکھ سے زائد افراد پر ہونے والی سابقہ 9 تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کرکے بیٹھے رہنے کے وقت اور ہارٹ اٹیک سمیت فالج جیسے امراض کے درمیان تعلق کو دریافت کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنا زیادہ وقت بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے یا ڈرائیونگ کرتے گزارنے والے افراد میں یہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

ایمزٹی وی(صحت)برطانیہ میں دو ہاتھوں کی پیوند کاری کا پہلا آپریشن کامیاب ہوا۔برطانیہ میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے برطانوی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک شخص کے دونوں ہاتھوں کی پیوندکاری کا کامیاب آپریشن کیا ہے۔

خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 57 سالہ برطانوی شہری کرس کنگ کے دونوں ہاتھ ایک حادثے میں ہتھیلیوں تک کٹ گئے تھے اور صرف دونوں ہاتھوں میں انگوٹھے باقی رہ گئے تھے، کرس کو ایک شخص کے عطیہ کردہ ہاتھ لگائے گئے ہیں۔

ہاتھوں کی پیوند کاری کے لیے آپریشن میں بارہ گھنٹے سے زائد کا وقت لگا اوراس میں آٹھ بہترین سرجنوں نے حصہ لیا۔ اس آپریشن کے بعد کرس برطانیہ میں دونوں ہاتھوں کی پیوند کاری کرانے والے پہلے شخص ہیں۔

واضح رہے کہ ان سے قبل ایک اور برطانوی کو کلائی تک صرف ایک ہاتھ لگایا گیا تھا، سرجری کے بعد ہوش میں آنے پر کرس کا کہنا تھا کہ زندگی میں اس سے بہتر کوئی اور شے نہیں ہے۔

ایمزٹی وی(صحت)امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور آغا خان یونیورسٹی نے یو ایس ایڈ کے کمیونٹی موبلائزیشن پروگرام سی ایم پی کے تحت چلنے والے اسکولوں میں طلبا کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔

امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور آغا خان یونیورسٹی نے یو ایس ایڈ کے تحت بچوں میں غذائی کمی کے خاتمے سے متعلق منصوبے پر دستخط ہوئے۔ منصوبے کے تحت صوبہ سندھ کے سات اضلاع اور کراچی کے پانچ ٹاونز میں سی ایم پی کے اسکولوں میں زیر تعلیم پانچ سے نو سال کی عمر کے بچوں میں غذایت کی کمی کے خاتمے کیلئے کوششیں کی جائیں گی۔ معاہدے پر دستخط کی تقریب میں پاکستان میں متعین امریکی سفیر ڈیوڈہیل کے علاوہ امریکی قونصل جنرل برائن ہیتھ،ڈائریکٹر جنرل محکمہ صحت سندھ حسن مراد شاہ، صوبائی محکمہ تعلیم کے شعبہ نصاب کی سربراہ فوزیہ خان اور آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے سربراہ ہانس کڈزرسکی بھی موجود تھے۔

معاہدے پر دستخط کی تقریب سے خطاب کرتےہوئے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے کہاکہ تعلیم بچوں کی صحت و نشونمامیں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے لوگ صحت مند نا ہوں۔ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے سندھ بیسک ایجوکیشن پروگرام (ایس بی ای پی) کے تحت حکومت سندھ کے ساتھ مل کر اسکولوں کے طلبا میں غذایت کی کمی کے مسائل پر قابو پانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ والدین کی آگاہی میں اضافے کیلیے بھی کام کیا جا رہا ہے۔

یو ایس ایڈ اور آغا خان یونیورسٹی کے اشتراک سے خصوصی بچوں کیلئے تعلیم کے مواقع وںاور سرکاری اور غیرسرکاری اسکولوں میں لڑکیوں کی حاضری میں اضافے کیلیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ تمام اقدامات اکتوبر2015میں امریکی خاتون اول مشیل اوبامہ اور پاکستانی وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف کی جانب سےشروع کیے جانے والے منصوبے (چلو لڑکیوں پڑھو) کا حصہ ہیں۔

بدھ, 27 جولائی 2016 12:05

اب روبوٹ سے فزیوتھراپی ہوگی

ایمزٹی وی(صحت)نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے طالب علم البرٹ ژانگ نے ایک ایسا روبوٹ ایجاد کیا ہے جو مریضوں کی فزیوتھراپی کرنے کے علاوہ مساج پارلر میں آنے والوں کو مشینی مساج کی سہولت بھی دے سکتا ہے۔

سنگاپور میں تیار کیا گیا یہ روبوٹ جس کا نام ’’ایکسپرٹ مینی پیولیٹیو آٹومیشن‘‘ اور مخفف ’’ایما‘‘ (EMMA) ہے، ایک عدد روبوٹ بازو پر مشتمل ہے جسے خصوصی کمپیوٹر سے مربوط کیا گیا ہے۔ ’’ایما‘‘ کو ایک ٹرالی پر رکھا جاتا ہے جب کہ اس کے روبوٹ بازو کا اگلا حصہ، فزیوتھراپی اور مساج کرنے والے خصوصی ساز و سامان سے لیس ہے۔ اس میں تھری ڈی فلم بنانے والا کیمرہ بھی نصب ہے جو بستر پر لیٹے ہوئے فرد کی لمحہ بہ لمحہ پوزیشن سے کمپیوٹر کو خبردار کرتا رہتا ہے۔

بازو کے اگلے حصے میں سینسرز بھی موجود ہیں جو دباؤ میں کمی بیشی کو محسوس کرسکتے ہیں، اسے انسان کی جانب سے صرف اتنی ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے کہ کس طرح کا مساج کرنا ہے جس کے بعد باقی تمام کام یہ خود سنبھال لیتا ہے۔

ژانگ نے اس روبوٹ کو مزید بہتر بنانے اور تجارتی پیمانے تک لانے کےلئے ’’اے آئی ٹریٹ‘‘ کے نام سے ایک کمپنی بھی قائم کرلی ہے،فی الحال یہ انسانی طبّی آزمائشوں سے گزر رہا ہے اور اب تک اسے 50 مریضوں پر کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے جو کہنی، کمر کے نچلے حصے اور کندھوں اور گردن کی اینٹھن میں مبتلا تھے جب کہ توقع ہے کہ ان آزمائشوں کی کامیاب تکمیل کے بعد یہ 2017ء کے اختتام تک فروخت کےلئے پیش کردیا جائے گا۔

ایمزٹی وی(صحت)سوئٹزرلینڈکے شہر جنیوا میں عالمی موسمیاتی ادارے نے تشویش ظاہر کی ہے کہ موجودہ سال انسانی تاریخ کا گرم ترین سال بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اس سال کے پہلے 6 مہینوں کے دوران گرمی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔

عالمی موسمیاتی ادارے کے سیکریٹری جنرل پیٹری تالاس کا کہنا ہےکہ آب و ہوا میں تبدیلی کے عشروں پر محیط اثرات اب اپنی نئی اونچائیوں کو چھورہے ہیں، جو 2015/2016 میں ایل نینو کی شدت کے باعث اور بھی طاقتور ہوگئے ہیں۔

عالمی موسمیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ جون 2016 وہ چودھواں مہینہ رہا جس کے دوران ساری دنیا کا اوسط درجہ حرارت ریکارڈ سطح پر زیادہ نوٹ کیا گیا جب کہ بیسویں صدی کے اوسط سے زیادہ درجہ حرارت والا 378 واں مہینہ رہا۔ آسان الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس سال میں اب تک عالمی حدت کے پرانے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں اور نئے ریکارڈ مسلسل بن رہے ہیں، اس کی ایک وجہ زمینی کرہ فضائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مسلسل بڑھتی ہوئی مقدار ہے جو اس سال 400 حصے فی 10 لاکھ (400 پی پی ایم) کا خطرناک ہندسہ عبور کرچکی ہے۔

رپورٹ میں ناسا کے فراہم کردہ اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2016 کے پہلے 6 مہینوں میں زمین کا اوسط درجہ حرارت انیسویں صدی میں (صنعتی انقلاب سے پہلے کے) اوسط درجہ حرارت سے 1.3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔ یہی نہیں بلکہ اس زیادہ گرمی کے نتیجے میں قطبین اور گرد و نواح میں برف کی بڑی چادروں میں سالانہ پگھلاؤ بھی وقت سے پہلے مشاہدے میں آیا۔ علاوہ ازیں بحیرہ منجمد شمالی (آرکٹک سی) میں برفانی تودوں کا پھیلاؤ بھی 1970 کے عشرے کے مقابلے میں 40 فیصد کم ہوگیا ہے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ عالمی ماحول کی بحالی کے لیے تشکیل دیئے گئے منصوبوں اور عالمی معاہدوں پر پوری شدت سے عملدرآمد کی فوری ضرورت ہے ورنہ ساری زمین کے ماحول کا توازن بہت بری طرح سے بگڑ جائے گا جو دوسرے جانداروں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے ساتھ ساتھ خود انسانی نسل کو بھی بقاء کے خطرے سے دوچار کرسکتا ہے۔

ایمزٹی وی(کراچی) برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر بلینڈس لوئس نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستانی تاجروں کو بزنس ویزا کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے، جنہیں جلد دور کر لیا جائے گا۔

ایف پی سی سی آئی کے ریجنل آفس میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر بلینڈس لوئس کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی معیشت دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے، زراعت اور کاسمیٹکس میں سرمایہ کاری کے بڑے مواقع موجود ہیں، خواہش ہے کہ پاکستانی سرمایہ کار برطانیہ میں سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھائیں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستانی تاجروں کو بزنس ویزا کے حصول میں پاکستان کے تاجروں کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے جنہیں جلد دور کر لیا جائے گا۔ پاکستان اور برطانیہ کے مابین تجارت کے فروغ اور ویزا مشکلات کے حل کے لیے کمیٹی کی تشکیل کی ضرورت ہے۔

برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے معیشت پر اثرات کیسے ہوں گے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین آنے والے دنوں میں تجارتی حجم میں نمایاں اضافہ ہو گا

منگل, 26 جولائی 2016 15:05

’’ہرفن مولا‘‘ ویکسین کی تیار

ایمزٹی وی(صحت)امریکی سائنسدانوں نے ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی 3 ایسی اقسام دریافت کرلی ہیں جو انسانوں کو لاحق ہونے والے کئی طرح کے زکام کا علاج کرسکتی ہیں۔ یہ انکشاف امریکا میں طب و صحت کے دو بڑے اداروں نے ایک مشترکہ تحقیق کے بعد کیا ہے جس سے اب ایک ایسی ویکسین تیار ہونے کی امید پیدا ہوچلی ہے کہ جو انفلوئنزا کی پرانی اور نئی تمام اقسام کے خلاف یکساں طور پر مؤثر ہوگی۔

انفلوئنزا وائرس بڑی تیزی سے اپنی شکلیں بدلنے اور نت نئی اقسام میں ڈھلنے کی خطرناک صلاحیت رکھتا ہے۔ انفلوئنزا کا علاج کرنے والی ویکسین ایک سے 2 سال میں ناکارہ ہوجاتی ہے کیونکہ اس دوران انفلوئنزا وائرس خود کو بہت زیادہ تبدیل کرچکا ہوتا ہے۔ اس کے باعث پرانی ویکسین اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پاتی اور تبدیل شدہ انفلوئنزا وائرس کے لیے نئی ویکسین تیار کرنا پڑتی ہے۔

انفلوئنزا یعنی زکام کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بیسویں صدی کی ابتداء سے لے کر اب تک اس کی 5 عالمی وبائیں پھیل چکی ہیں جن کے باعث دنیا بھر میں کم از کم ڈھائی کروڑ اموات واقع ہوئی ہیں۔

انفلوئنزا کے خلاف ’’ہر فن مولا ویکسین‘‘ (یونیورسل ویکسین) کی تیاری سے ہر سال نئی انفلوئنزا ویکسین تیار کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ ویکسین اگر ایک بار بھی تیار کرلی گئی تو وہ متوقع طور پر انفلوئنزا کی نہ صرف موجودہ اور پرانی بلکہ مستقبل میں آنے والی تمام نئی اقسام کے خلاف بھی مؤثر رہے گی۔

منگل, 26 جولائی 2016 13:37

منشیات آن لائن بھی مل رہی ہیں

ایمزٹی وی(صحت)نشہ انسان کو زندگی سے دور کردیتا ہے مگر اس کے باوجود دنیا میں منشیات کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، 25 کروڑ افراد اِس لَت میں مبتلا ہیں، اقوام متحدہ نے انکشاف کیا ہے کہ منشیات آن لائن بھی مل رہی ہیں۔

نشے سے انکار، زندگی سے پیار، یہ خوش کن نعرہ منشیات کا استعمال نہ روک سکا، کروڑوں شکار ہوگئے، اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم کی رپورٹ کے مطابق 15 سے 64 سال کی عمر کے 25 کروڑ افراد منشیات استعمال کرتے ہیں، یہی نہیں مغربی ممالک میں منشیات آن لائن آڈر کی جاتی ہے، جسے ڈارک نیٹ کہتے ہیں۔ سیکریٹری نارکوٹکس کنٹرول اعجاز خان کہتے ہیں اسکول اور یونیورسٹی کی سطح پر طلبہ کو منشیات کیخلاف آگاہی مہم میں ساتھ لے کرچلنا ہوگا۔

ایمزٹی وی(صحت)کٹھل انتہائی لذیذ وزنی پھل ہے۔ یہ عام طور پر بیل کی شکل میں زمین کے قریب پیدا ہوتے ہیں لیکن پانچ سے پینتیس کلو وزنی پھل درخت پر بھی لگتا ہے۔ درخت کے تنے کیساتھ ساتھ اگنے والے اس پھل کو اردو میں کٹھل اور انگریزی میں جیک فروٹ کہلاتا ہے اس کا چھلکا سخت لیکن گودا قدرے نرم اور میٹھا ہوتا ہے۔ کھٹل کے درخت کو کئی سال بعد پھل لگتا ہے۔

گرم اور نم موسم میں اگنے والے اس پھل کے جام اور مربے بھی بنائے جاتے ہیں۔ کھٹل بنگلہ دیش کا قومی پھل ہے جہاں کچے کٹھل کا سالن بھی بنایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کٹھل سے کئی بیماریوں کا علاج بھی ہوتا ہے جن میں آنتوں کی بیماریوں سے شفاء قابل ذکر ہے۔ جناح باغ لاہور میں اس منفرد پھل کے چند درخت موجود ہیں۔ یہ پھل سال میں ایک مرتبہ لگتا ہے اور جون میں بننے والے کچے کھٹل اگست کے آخر میں پک کر کھانے کیلیئے تیار ہو جاتے ہیں۔

ایمزٹی وی(صحت)وفاقی دارالحکومت میں واقع پمز (پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز) کہنے کو تواسلام آباد کا نمبرون سرکاری شفاخانہ ہے لیکن دنیا کے پہلے پانچ ہزار اسپتالوں میں بھی اِس کا نام نہیں آتا۔ اسپتالوں کی درجہ بندی کرنے والی عالمی تنظیم کے مطابق پمز کا نمبرپانچ ہزارایک سو گیارہ ہے یعنی پاکستان کے اس نمبرون اسپتال کا نام دنیا کے پہلے پانچ ہزار اسپتالوں میں بھی شامل نہیں ہے۔

ملک بھرسے مریض علاج کی غرض یہاں آتے ہیں مگریہاں بھی پریشانی ان کا مقدربنتی ہے۔ کئی ٹیسٹ ایسے ہیں جن کی سہولت یہاں میسر نہیں، مریضوں کو باہر سے ٹیسٹ کرانا پڑتے ہیں۔ اسپتال میں صفائی کا بھی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ جا بجا گندگی دکھائی دیتی ہے۔

وائس چانسلر پمز ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ صرف اسلام آباد ہی نہیں، افغانستان سے لے کر بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان تک سے مریض یہاں آتے ہیں،۔ پبلک سیکٹرمیں نہ ہونے کے باجود بھی یہ نمبر ون اسپتال ہے، اس کا مطلب ہے اچھا کام کررہے ہیں تو لوگ آرہے ہیں ۔