ھفتہ, 27 اپریل 2024

Displaying items by tag: Health

ایمزٹی وی(صحت)اگر آپ ایبولا، زیکا، برڈ فلو یا ایڈز کو انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز بیماری سمجھتے ہیں تو اپنی غلط فہمی دور کرلیں کیونکہ آسٹریلوی سائنسدانوں نے ’’ملیریا‘‘ کو انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز بیماری قرار دیا ہے۔ آسٹریلوی جریدے ’’بزنس انسائیڈر‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ ’’ملیریا‘‘ انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز بیماری ہے جو عام لوگوں کے علاوہ کئی مشہور ہستیوں تک کو ہلاک کرچکی ہے۔ بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہےکہ اس کرہ ارض پر اب تک جتنے انسان بھی پیدا ہوئے ہیں ان میں سے کم و بیش 50 فیصد ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق انسان اور ملیریا طفیلیے ’’پلازموڈیم‘‘ میں مڈبھیڑ کی تاریخ کم و بیش 2 کروڑ سال پرانی ہے جس کے دوران یہ مرض متعدد بار وبائی شکل اختیار کرچکا ہے۔ علاوہ ازیں معمول کے حالات میں بھی ملیریا کی تباہ کاریاں کچھ نہیں رہیں۔ مثلاً 1900 سے 1950 کے دوران صرف ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 10 کروڑ رہی، جو ’’اسپینش فلو‘‘ کی عالمی وبا سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے بھی دُگنی ہے۔

انسانی تاریخ کے دوران ملیریا نے بڑے بڑوں تک کو نہیں بخشا۔ مثلاً چنگیز خان اور اٹیلا ہُن کے لشکروں میں ملیریا کی وبا نے بھیانک تباہی مچائی اور انہیں عرصے تک پیش قدمی سے روکے رکھا۔ جارج واشنگٹن، تھیوڈور روزویلٹ، ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی جیسے مشہور امریکی صدور بھی ملیریا کے باعث بیمار پڑے۔ ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی مشہور تاریخی شخصیات میں 6 عدد پوپ، سکندرِ اعظم اور فرعون توتنخ آمون تک کے نام شامل ہیں۔

1946 میں امریکی ادارے ’’سینٹر فار ڈزیز کنٹرول‘‘ (سی ڈی سی) کا قیام ہی ملیریا پر قابو پانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ تب سے آج تک نت نئی کیڑے مار دواؤں اور ملیریا کی دواؤں کی بدولت اس بیماری پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے لیکن آج بھی بیشتر غریب اور پسماندہ ممالک میں اس کی شدت برقرار ہے اور یہ ہر سال 5 لاکھ سے زائد افراد کی جان لے لیتی ہے۔

واضح رہے کہ انوفلیز مچھر کی مادّہ میں ملیریا کا طفیلیہ ’’پلازموڈیم‘‘ پروان چڑھتا ہے اور اسی مادہ مچھر کے کاٹنے سے ملیریا ہوتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5 لاکھ افراد ملیریا میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً 2700 لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ایمزٹی وی(صحت)بڑھتی ہوئی عمر کا خوف دنیا بھر کی خواتین کو دامن گیر رہتا ہے کہ اسکے اثرات ان کے چہرے پر جھریاں نہ پڑیں۔ شا ید وہ بڑھتی ہوئی عمر کو ذہنی طور پر تسلیم نہیں کر پاتیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر ممکن کو شش کر تی ہیں کہ اپنی بڑ ھی ہو ئی عمر کے اثرات کو چھپایا جاسکے، اس کے لیے مختلف اقسام کی مقامی اور بین الاقوامی کریموں سے لے کر مختلف آزمودہ گھریلو ٹوٹکوں تک، سب کچھ استعمال کر ڈالتی ہیں ۔

ان سب کو استعمال کرنا تو ایک الگ بات ہے، لیکن اس کے سا تھ سا تھ آپ کو اپنی غذا میں توازن بھی لانا ہوگا۔ مرچ مسالے دار غذاؤں سے پر ہیزکریں۔ نیند کا پورا کرنا اور پانی کا وافر استعمال بھی آپ کو جوان رکھتا ہے۔ ساتھ ہی اعصابی تناؤ اور ڈپریشن جیسی چیزوں سے دور رہیں، خوش رہیں، تو جوان نظر آئیں گی ایکسرسائز کریں۔ جتنا زیادہ ہو سکتا ہے۔ اپنے مزاج میں سادگی اور اعصاب کو پرسکون رکھیں۔

غصہ کرنے سے سب سے برے اثرات آپ کے چہرے پر نمودار ہوتے ہیں۔ اپنے لباس کو اس طرح برتیں کہ آپ کم عمر نظر آئیں۔ جتنا اپنے چہرے اور ہاتھ پاؤں کا خیال کرتی ہیں، اتنا ہی اپنے با لوں کا بھی کریں۔ بال ڈائی کر نے سے بال رنگ تو جاتے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کو رنگوں سے الرجی بھی ہوتی ہے۔ اس لیے کسی اچھے معالج سے اس بارے میں معلومات ضرور حاصل کرلیں۔ ہم بھی آپ کی اس فکر کو دور کرنے میں آپ کی کچھ مدد کیے دیتے ہیں۔

چہرے کی رونق کے لیے ہلدی بیسن کو برابر مقدار میں لے کر انہیں دودھ یا پانی میں گھول کر آمیزے کی شکل میں بنالیں اور چہرے اور سارے جسم پر بھی لگایا جا سکتا ہے، پھر اسے خشک ہونے پر نیم گرم پانی سے مساج کرتے ہوئے اتار دیں۔

جھا ئیوں سے بچاؤ کے لیے۔ ٹماٹر کے رس اور دودھ کو چاول کے پاؤڈر میں ہلدی پاؤڈر ملا کر آمیزہ بنا کر جلد پر لگائیں، خشک ہونے پر دھو لیں۔ اس میں موجود دودھ جلد پر موجود مردہ خلیوں کو ختم کرتے ہیں۔ آنکھوں کے حلقوں کے لیے۔ ہلدی کو مکھن یا گنے کے رس میں ملا کر آنکھوں کے نیچے بننے والے سیاہ حلقوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ایکنی کو ختم کر نے کے لیے ہلدی میںلیموں کا رس اور چند قطرے پانی شامل کر کے دانوں پر لگانے سے بھی بہت افا قہ ہو تا ہے۔ اس کے علاوہ صندل کی لکڑی کا پاؤڈر بھی ہلدی میں ملا کر لگانے سے ایکنی میں کمی ہو جاتی ہے۔ چکنی جلد سے بچنے کے لیے خواتین چہرے کے کی چکنائی کو کم کرنا چاہتی ہیں، تو صندل کی لکڑی کے پاؤڈر میں ہلدی کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا کینو یا موسمی کا عرق شامل کر کے لگائیں اور دس منٹ بعد نیم گرم پا نی سے دھو لیں۔

کھانا بناتے ہوئے خدانخواستہ تیل یا بھاپ سے جل گیا ہو تو ہلدی میں ایلوویرا جیل ملا کر لگالیں، تو جلن اور زخم فوراً ختم ہو جائیں گے، ساتھ نشان بھی کم ہو جائے گا۔ چہرے کے بال بھی خواتین کا اہم مسئلہ ہیں جن سے چھٹکارے کے لیے بھنے ہوئے چنے کے سفوف میں ہلدی ملاکر لگائیں اور خشک ہونے پر رگڑ کر اتار لیں۔ یہ عمل ایک مہینے تک لگاتی رہیں افاقہ ہوگا۔

ایمزٹی وی(صحت)جلد پر سیاہ کیلیں آپ کے حسن کو گہنا دیتی ہیں اور اچھا خاصا چہرہ بھی بیمار دکھائی دیتا ہے لیکن اب ایک سادہ گھریلو نسخے سے آپ صرف چند روز میں بدنما کیلوں سے نجات پاسکتے ہیں۔ کیلیں چہرے، کمر اور کان کے اندر نمایاں ہوتی ہیں کیونکہ یہاں پسینہ پیدا کرنے والے غدود موجود ہوتے ہیں۔ جلد پر بار بار سیاہ کیلیں نمودار ہونے کی ایک اہم وجوہ میں ناقص غذا، تیل دار جلد، بند غدود اور مسام ہوسکتے ہیں۔

چہرے کے مسام جب اضافی تیل اورجلد کے مردہ سیلز سے اٹ جاتے ہیں تو سیاہ کیلیں پیدا ہوتی ہیں۔ چہرے پر سفید کیل اور سیاہ کیل کے درمیان فرق مسام کے کھلنے اور بند ہونے کا ہے۔ جب مسام کھلا ہو تو چکنائی اور جلد کے خلیات آکسیڈائز ہوجاتے ہیں اور سیاہ رنگت اختیار کرلیتے ہیں۔

بلیک ہیڈز گردوغبار سے وجود میں نہیں آتے اس لیے دیوانوں کی طرح اپنی نازک جلد کریدنے سے گریز کریں۔ اس سے جلد مزید خشک اور کھردری ہوجائے گی اور مزید تیل پیدا ہوجائے گا۔ بلیک ہیڈز کو گھریلو نسخوں سے بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔

رس بھرا آدھا لیموں اور شہد شہد کے قطرے لیموں کی کھلی ہوئی سطح پر ٹپکائیں اور دھیرے دھیرے اپنے چہرے پر ملیں۔ جہاں کیلیں ہیں وہاں خصوصاً اچھی طرح رگڑیں اور اس کے بعد جلد کو 5 سے 7 منٹ کے لیے چھوڑ دیں۔ اس کے بعد ٹھنڈے پانی سے منہ دھولیں۔ آپ کو فوری فرق محسوس ہوگا۔ اس کے بعد آپ کی جلد بہت نرم اور چمکدار محسوس ہوگی کیونکہ یہ مرکب ایک طرح کا موسچرائزر بھی ہے۔

لیموں اور شہد کا عمل لیموں میں تیزابی خواص ہوتے ہیں جو چہرے سے مردہ جلد نکالنے میں نئی جلد کی افزائش میں مدد دیتے ہیں۔ اس سے چہرہ صاف و شفاف ہوجاتا ہے اور بلیک ہیڈز کم ہونے لگتے ہیں۔ قدرتی اینٹی بایوٹکس ہے اور جلد کے مساموں سے گردوغبارصاف کرتا ہے۔ شہد جلد کو ہائیڈریشن فراہم کرکے چہرے کو صاف رکھتا ہے۔ اگر آپ ہفتے میں 2 سے 3 مرتبہ اس نسخے کو آزمائیں تو چہرہ کیلوں سے پاک ہوجائے گا۔

ایمزٹی وی(صحت)مریضوں کو آرام پہنچانے والی دواؤں کو خود مہنگائی کے مرض میں مبتلا ہوگئیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ستر ہزار دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے بیماری کے ستائے مریضوں کو ایک اور جھٹکا دے دیا۔ مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال ہونے والی ستر ہزار دوائیں مہنگی کردیں۔

ہیپاٹائٹس، دل کے امراض،شوگر، ٹی بی، کینسر اور گردے کے امراض کی دواؤں کی قیمتوں میں ایک اعشاریہ تینتالیس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اینٹی بائیوٹک، ان ہیلر اور ٹیکے بھی اتنے ہی مہنگے ہوگئے ہیں۔

ملٹی وٹامن، درد اور مرگی کی دوائیں دو فیصد مہنگی کردی گئیں۔ کم قیمت والی دوائیں بھی اب کم قیمت نہیں رہیں گی۔ان کے نرخوں میں بھی دو اعشاریہ چھیاسی فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ دوا ساز کمپنیوں کواضافے کے لیے پندرہ روز قبل ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کواطلاع دینا ہوگی۔

ایمزٹی وی(صحت)سائز میں بہت چھوٹا مگر اس کی افادیت اور فائدے بے پناہ، جی ہاں چھوٹا نظر آنے والا لیمو غذائیت اور فائدوں میں بڑے بڑوں سے آگے ہے۔ لیمو جہاں انسانی صحت کیلئے مفید ہے، بلکہ آپ کی جلد اور خوبصورتی میں اضافے کیلئے بہت کارآمد ہے، ذیل میں لیمو کے چند فوائد درج ہیں۔

لیموں میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ اس کے استعمال سے گلے میں پھنسی بلغم رفع ہو جاتی ہے، نیم گرم میں پانی میں لیموں کا رس ملا کر غرارے کرنے سے گلہ کو بھی تقویت ملتی ہے۔ لیموں کا جوس پینے جلدکی صحت پر بھی مثبت اثر ات مرتب ہوتے ہیں، لیموں کو براہ راست جلد پر ملنے سے بھی اسے خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔ آنکھوں کے حلقوں کے لئے بھی یہ فائدہ مند ہے، لیموں کو آنکھوں کے گرد بنے حلقے کم کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

لیموں پوٹاشیم سے بھرپور ہوتا ہے، جس کی جسم میں موجودگی سے انسان نہ صرف دل اور دماغ کے مختلف امراض سے بچا رہتا ہے بلکہ یہ ہمارے اعصابی نظام کو بھی بہتر بناتا ہے۔رواں سال کلینیکل اینڈ ایکسپیر یمینٹل فارماکالوجی اینڈ سائیکالوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق لیموں میں نیرنجنین نامی مرکب پایا جاتا ہے، جو جگر کی صفائی کے لئے نہایت موثر ہے۔

لیموں میں موجود اجزا یورک ایسڈ کو بڑھنے نہیں دیتے، جو جوڑوں میں درد کا باعث بنتا ہے۔ لیموں کا جوس ہمارے نظام انہضام کو بہتر بنا کر قبض کو دفع کرنے میں نہایت معاون ثابت ہوا ہے۔

ایمزٹی وی(صحت)اگر آپ سارا دن دفتر میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں تو آپ کو موٹاپے اور ہائی بلڈ پریشر سمیت کئی جان لیوا بیماریوں کا سامنا ہوسکتا ہے لیکن اگر آپ اپنے معمولات میں روزانہ صرف ایک گھنٹے تک تیز قدموں سے پیدل چلنے کی عادت بھی شامل کرلیں تو ان تمام خطرات سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔

یہ آسان سا مشورہ ’’دی لینسٹ‘‘ نامی مشہور طبی جریدے میں شائع شدہ ایک تازہ تحقیقی رپورٹ میں دیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے دوران 10 لاکھ سے زائد بالغ افراد کا مطالعہ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ روزانہ کم از کم 8 گھنٹے تک بیٹھنے کے نتیجے میں ناگہانی موت کا خطرہ 60 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ’’نشستی طرزِ حیات‘‘ (sedentary lifestyle) سے لوگوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں جو تمباکو نوشی کے خطرات سے کچھ کم نہیں جب کہ مسلسل کئی گھنٹوں تک بیٹھے رہنے کی وجہ ناگہانی موت کی شرح موٹاپے سے ہونے والی اموات سے بھی زیادہ ہے۔

بظاہر آسان سے اس مشورے پر عمل کرنا بھی بہت سے لوگوں کے لیے انتہائی مشکل ہوگا کیونکہ تھوڑی دیر تک پیدل چلنا بھی ہم میں سے اکثر کو ناگوار گزرتا ہے۔ مثلاً اس سے بہت پہلے صحت کے برطانوی اداروں نے عوامی سطح پر یہ مشورہ جاری کیا تھا کہ بہتر صحت کے لیے روزانہ آدھے گھنٹے تک پیدل چلنا چاہیے لیکن اس پر بہت کم لوگوں نے توجہ دی۔ لینسٹ کی رپورٹ میں یہ اضافی مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ ایک گھنٹے تک مسلسل پیدل چلنے کے بجائے اگر ہر ایک گھنٹے کے دوران صرف 5 منٹ تک تیز قدموں سے پیدل چل لیا جائے اور لنچ ٹائم پر اور شام کے وقت (اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے) کچھ ہلکی پھلکی ورزشیں بھی کرلی جائیں تو دن بھر کی چہل قدمی اور ورزش کا کوٹا پورا کیا جاسکتا ہے۔ پیدل چلنے کے بجائے اتنی ہی دیر تک سائیکل بھی چلائی جاسکتی ہے۔

ایمزٹی وی(صحت)پرڈو یونیورسٹی انڈیانا اور یونیورسٹی آف ٹینیسی کے سائنسدانوں نے دودھ کو محفوظ کرنے کا ایک ایسا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے جس کی بدولت دودھ 9 ہفتے یعنی 63 دن تک نہیں پھٹے گا۔ اس طریقے میں سب سے پہلے دودھ کو جراثیم سے پاک کرنے کے معیاری طریقے یعنی ’’پاسچرائزیشن‘‘ سے گزار کر ٹھنڈا کرلیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دودھ کو ایک بار پھر بڑی تیزی سے گرم کرتے ہوئے اس کا درجہ حرارت معمول کے مقابلے میں ایک سے 2 سیکنڈ کے لیے 10 ڈگری سینٹی گریڈ تک زیادہ کیا جاتا ہے اور پھر اسے اتنی ہی تیزی سے ٹھنڈا کرلیا جاتا ہے۔ اب اگر یہ دودھ کسی ڈبے یا برتن میں بند کرکے رکھ لیا جائے تو یہ 63 دن تک محفوظ رہے گا۔

یہ دلچسپ طریقہ ایجاد کرنے والی ٹیم کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پاسچرائزیشن کی بدولت دودھ میں موجود 99 فیصد سے زیادہ جراثیم مرجاتے ہیں اور ’’ہماری تکنیک ان باقی بچے ہوئے جرثوموں میں سے بھی 99 فیصد سے زیادہ کو مار ڈالتی ہے، یعنی عملاً دودھ میں ایسا کچھ نہیں بچتا جو اسے خراب کرسکے۔

اس طرح سے محفوظ بنایا گیا دودھ نہ صرف جراثیم سے پاک ہوتا ہے بلکہ 9 ہفتے تک اپنی رنگت، ذائقے اور خوشبو میں بھی تر و تازہ رہتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ طریقہ ڈیری مصنوعات بنانے والے کارخانوں کے لیے ہے جس سے گھر پر مشکل ہی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے اب اس نئے طریقے کو پیٹنٹ بھی کروالیا ہے۔

ایمزٹی وی(صحت)جرمنی کے سائنسدانوں نے انسانی ناک میں دنیا کی مؤثر ترین اینٹی بایوٹک بنانے والے جراثیم دریافت کر لیے ہیں اور یہ اینٹی بایوٹک سب سے سخت جان جرثوموں کے خلاف بھی کارآمد ثابت ہونے کی امید ہے۔ اینٹی بایوٹک دواؤں کے خلاف جرثوموں میں بڑھتی ہوئی مزاحمت ایک سنگین طبّی مسئلہ بنتی جارہی ہے ان میں سرِفہرست ’’ایم آر ایس اے‘‘ کہلانے والے جراثیم ہیں جن کے خلاف اب تک کی طاقتور ترین اینٹی بایوٹکس بھی اثرانداز نہیں ہوتیں۔

جرمنی کی توبنجن یونیورسٹی کے ماہرین نے انسانی ناک میں دنیا کی مؤثر ترین اینٹی بایوٹک بنانے والی جراثیم دریافت کیے ہیں جسے ’’لگڈیونین‘‘ (lugdunin) کا نام دیا گیا ہے جو ’’ایم آرایس اے‘‘ تک کو ہلاک کرسکتی ہے۔ اس دریافت کا اعلان مشہور و معتبر ریسرچ تحقیقی مجلے ’’نیچر‘‘ کے تازہ ترین شمارے میں کیا گیا ہے۔ لگڈیونین کو اب تک چوہوں پر بڑی کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے اور انسانوں پر اس کی آزمائشیں شروع کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ اب تک بیشتر اینٹی بایوٹک دوائیں مٹی میں رہنے والے بیکٹیریا سے حاصل کی جاتی رہی ہیں مگر اب ان سے کسی نئے اور زیادہ مؤثر مرکب کی تلاش مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ مٹی کی طرح انسانی جسم میں بھی ہزاروں اقسام کے خردبینی جاندار پائے جاتے ہیں جنہیں مجموعی طور پر ’’مائیکروبایوم‘‘ کہا جاتا ہے۔

مختلف مطالعات سے یہ معلوم ہوا تھا کہ اسپتالوں میں داخل 30 فیصد مریضوں کی ناک میں ایم آر ایس اے موجود ہوتا ہے جب کہ 70 فیصد کی ناک میں یہ جرثومہ نہیں ہوتا۔ اس سے ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انسانی ناک میں یقیناً کچھ ایسے بیکٹیریا ضرورہوتے ہیں جو یہاں ایم آر ایس اے کو پنپنے ہی نہیں دیتے۔ لگڈیونین خارج کرنے والے جرثوموں کی دریافت نے اس خیال پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔

پیٹری ڈش میں کیے گئے تجربات میں یہ نئی اینٹی بایوٹک، ایم آر ایس اے کے علاوہ دوسری کئی اقسام کے سخت جان جرثوموں کے خلاف بھی یکساں طور پر کارآمد دیکھی گئی۔ اور تو اور لگڈیونین کے خلاف جرثوموں میں مزاحمت بھی پیدا نہیں ہوسکی۔ یہ دریافت ایسے حالات میں ہوئی ہے جب ساری دنیا کے طبّی ماہرین نئی اور بہتر اینٹی بایوٹک تلاش کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں لیکن انہیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت نئی اینٹی بایوٹکس کی بہت کم تعداد طبّی آزمائشوں کے مختلف مرحلوں سے گزر رہی ہے۔

اس دریافت نے جہاں ایک نئی اور زیادہ طاقتور اینٹی بایوٹک دوا کی امید پیدا کی ہے وہیں انسانی جسم میں قدرتی طور پر پائے جانے والے جرثوموں کا مجموعہ یعنی ’’ہیومن مائیکروبایوم‘‘ مزید نئی اور مؤثر دواؤں کے متوقع ماخذ کے طور پر سامنے آیا ہے۔

ایمزٹی وی(صحت)تھر پارکر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں زیرعلاج مزید 4 بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر دم توڑ گئے ہیں۔ تھر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر مٹھی کے سول اسپتال میں زیر علاج مزید 4 بچے دم توڑ گئے ہیں، یہ چاروں بچے غذائی قلت کا شکار تھے۔ زندگی کی بازی ہارنے والے بچوں میں 5 روز کا اویس، 18 ماہ کی سفیت، 8 روزہ جتیش میگھواڑ اور 5 روزہ لطف علی شامل ہیں۔ رواں ماہ غذائی قلت سے ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 38 ہوگئی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ 3 برسوں کے دوران تھر میں قحط سالی، غذائی قلت، وبائی امراض اور موسمی بیامریوں کا شکار ہوکر اب تک ایک زہار سے زائد بچے دم توڑ چکے ہیں۔

ایمزٹی وی(صحت)کینسرپرتحقیق کرنے والے برطانوی ادارے ’’کینسر ریسرچ یوکے‘‘ نے دریافت کیا ہے کہ ملیریا کا علاج کرنے والی ایک پرانی دوا سے سرطان کے علاج میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ ایڈوواکیون ایک کم خرچ دوا ہے جو آج بھی ملیریا سے بچاؤ اور علاج دونوں میں استعمال ہورہی ہے۔ چوہوں پر کی گئی اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ملیریا کی اس پرانی دوا ’’ایٹوواکیون‘‘ سے چوہوں میں سرطان زدہ خلیات کے اندر آکسیجن کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کی بدولت ان پر ریڈیو تھراپی کے بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ کینسر کی ان اقسام میں پھیپھڑوں، معدے، دماغ، سر اور گردن کا سرطان شامل ہیں۔

ریڈیو تھراپی میں کم آکسیجن والے سرطان زدہ خلیات کا علاج خاصا مشکل ہوتا ہے اور ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ کہیں وہ اپنے ابتدائی مقام سے فرار ہوکر کسی اور جسمانی عضو میں پہنچ کر اسے بھی سرطان کا شکار نہ بنادیں۔ ایسے میں تابکار لہروں کی زائد مقدار بھی مریض کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔