جمعرات, 18 اپریل 2024


اے علم کہ یہاں تیری کیا اوقات ہے؟

رپورٹ : سارا گِل

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا انحصار اس معاشرے میں رائج معیاری تعلیمی نظام پر ہوتا ہے۔تعلیم ترقی کی عمارت کی بنیادی اکائی ہے، مگر افسوس ہمارے معاشرے میں معیاری تعلیم تو دُوریکساں امتحانی بورڈ تک موجودنہیں ۔ محض چار صوبوں میں 25 امتحانی بورڈز ہیں ۔8 کے پی کے میں،8 پنجاب میں ، 6 سندھ میں، 3 بلوچستان میں اور ہر امتحانی بورڈ کا امتحانی نظام اور معیار مختلف ہے، تو ہم کیسے یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایسے حالات میں ہمارے معاشرے میں یکساں تعلیمی نظام قائم ہو سکتا ہے۔

علم کی راہ میں دوہرہ تعلیمی نظام ہی واحد مسئلہ نہیں بلکہ اس مسئلے کے اور بھی کئی ساتھی ہیں۔پاکستان کی آبادی دنیا کی آبادی کا کُل 2.5% ہے اور اسکولز کی تعدادانتہائی کم، کُل 163000 پرائمری، 14000 (lower) لور سیکینڈری، 1000 ہائی سیکنڈری اسکولز ہیں اور یہ تعداد 185.1 ملین آبادی کے لحاظ سے کچھ خاص نہیں۔

 

 موجودہ اسکولز بھی ایسی پست حالی کا شکار ہیں کہ بیان سے باہر، کچھ درسگاہوں میں طلبہ کے بجائے شور مچاتے سناٹوں کے سائے ہیں، کچھ صرف ملبے کا ڈھیر ، کسی عمار ت کا نام تو اسکول ہے مگرتعلیم فراہم کرنے کے بجائے دوسری سرگرمیوں کے لئے زیراستعمال ہیں، 60% اسکولز میں صاف پانی تک مہیا نہیں، 40% میں بجلی کی سہولت میّسر نہیں، کسی اسکول میں استاد نہیں تو کس میں شاگرد۔46% شرح خواندگی کا بیشتر حصہ ایسے پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے جو با مشکل اپنے دستخط کرنے کے ہنر سے واقف یا جعلی ڈگری کے مالکان ہیں۔ 

عورت اگرتعلیم یافتہ ہوتوپورے گھر کو قابل بنانے اور تعلیم کو نئی نسل تک منتقل کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے اور قوموں کی ترقی یونہی ہوتی چلی آئی ہے ہماری بدقسمتی کہ ملک میں صرف 12% خواتین تعلیم یافتہ ہیں۔اگر تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو غوروفکر کےلئے عمارتوں، مقبروں اور میناروں کے سواءکچھ نہیں رکھا،دوسری جانب مغرب کے آگے بڑھ جانے کاسبب علم کو اہمیت دینا، مستحکم تعلیمی اداروں کا قیام اور بہتر سے بہتر تعلیمی نظام کو فروغ دیناہے پاکستان اور ہند وستان نے ایک ہی وقت میں انگریزوں سے رہائی حاصل کی،مگر آج بھارت نے ہمیں علم کے میدان میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے، ایک ہی جیسے مسائل سے دو چار ہونے کے باوجود شرح خواندگی74% ہے اور ہر سال پانچ لاکھ صرف انجینئرتیارکرتے ہیں اور ہمارے ملک میں سالانہ کُل4,45000 بچے گریجویشن کرتے ہیں۔

تعلیمی اعتبار سے اس بدترین حالت کا ذمہ دار اور کوئی نہیں ہم خود ہیں کہ جنہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ ہمارا معاشرہ کس قدر پست حالی کا شکار ہے، مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے مسائل کے عادی ہوتے چلے جارہے ہیں، کیونکہ ہم نے تعلیم کو اہمیت ہی نہیں دی ۔چند ایک ایسے لوگ جو اپنے بچوں کو اچھے تعلیمی ماحول میں پڑھانے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولز میں پڑھاتے ہیں مگر ملک کا بیشتر حصہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔

 

حکمران ہیں کہ اس جانب متوجہ ہونے کی مد میں ہی نہیں اور کس قدر غیر ذمہ درانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں جیسے اپنے فرائض سے واقف ہی نہ ہوں، ملک کے بچوں سے جیسے کوئی واستہ ہی نہیں۔تعلیم پر خرچ کے لیے مقررہ بجٹ1.5 سے2.5 فیصد ہے اور اس کا بھی بیشتر حصہ کرپشن کی نظر کر دیا جاتا ہے،سفارشی بنیاد پرغیر تربیت یافتہ اساتذہ کی بھرتیاں، 40,000 تو ایسے اساتذہ جن کا کوئی وجود نہیں مگران کے نام پر تنخواہیں ریلیز کی جاتی ہیں۔

صرف کراچی شہر میں5600 اسکولزجن کا کوئی وجودنہیں مگر اخراجات بہت ہیں،گوسٹ اسکولز اور اساتذہ کے نام پر ریلیز کیا جانے والا بجٹ 145.02 ملین ہے۔5.5ملین بچوں نے کبھی اسکول کا چہرہ نہیں دیکھاحالانکہ آرٹیکل25-A کے تحت حکومت پر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ ہر 5 سے16 سال تک کے بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم فراہم کریں، مگر آئین تو صرف کتابوں کی زینت بن کر رہ گئے ہوں۔

یہ حال کچھ کم نہ تھا کہ دہشتگردی نے بھی تعلیم پر دھاواں بول دیااور بچے کچے تعلیمی اداروں پر بھی تالے پڑگئے۔کیا ہوگا اس قوم کا مستقبل، کون کرے کا علم کا تحفظ ؟حکمراں بھی یوں منہ پھیرے رہیں گے توقوم کے مستقبل کے سر پر دست شفقت کون رکھے گا؟کیسے علم کے چراغ روشن ہوں گے اور کیسے جہالت کے اندھیرے دُورہوں گے؟ 

 

 جہالت کے اندھیروں میں عجب کھویاہواہوں میں

میں ہوں توتہذیب کاحامل ،مگرسویاہواہوں میں

پڑی ہے جہل کی دلسوزگرد میرے چہرے پر

معاشرہ تمدن ہوں ، مگر سہماہو اہوں میں

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment